rki.news
تنقیدی جائزہ : انو رادھا ورما، ریسرچ اسکالر.
انور ظہیر رہبر کا افسانہ سرخ دھبہ محض ایک حادثے کی روداد نہیں بلکہ جدید تہذیب کے زوال، مشینی ترقی کی اندھی دوڑ اور سرمایہ دارانہ نظام کی غیر انسانی روش کا علامتی بیانیہ ہے۔ قاری کو یہ کہانی پڑھتے ہوئے صرف ایک حادثے کا بیان نظر نہیں آتا بلکہ اس کے پس منظر میں ایک وسیع سماجی و تہذیبی المیہ ابھرتا ہے۔ بظاہر یہ ایک کار حادثے کا تذکرہ ہے لیکن حقیقت میں یہ اس تیز رفتار معاشرتی زندگی کی علامت ہے جس میں انسان محض ایک پرزہ بن چکا ہے۔
افسانے کا مرکزی استعارہ ’’سرخ دھبہ‘‘ صرف خون کا دھبہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی سوالیہ نشان ہے۔ یہ دھبہ اس بے حسی اور اقدار کی موت کا استعارہ ہے جس کا شکار آج کا انسان ہے۔ ترقی اور رفتار نے ہمیں سہولت تو دی ہے لیکن حساسیت اور رشتوں کی معنویت چھین لی ہے۔ اب انسانی جان محض ایک لمحاتی تاثر ہے جو جلد فراموش کر دیا جاتا ہے۔
افسانہ دو مختلف براعظموں کے حادثات پر مبنی ہے۔ پہلا واقعہ امریکہ میں پیش آتا ہے جہاں میگی نامی خاتون ایک روبوٹک کار میں مصروفِ سفر ہے۔ وہ کار کے الارم کو نظر انداز کر دیتی ہے اور نتیجتاً ایک بوڑھے سائیکل سوار کی جان ضائع ہو جاتی ہے۔ لیکن ضمیر کی خلش کے بجائے وہ فوری طور پر سارا الزام روبوٹ پر ڈال دیتی ہے۔ دوسرا حادثہ جنوبی کوریا میں پیش آتا ہے جہاں ایک انجینئر یوننگ اپنے دیوہیکل روبوٹ پر نازاں ہے لیکن وہی روبوٹ اُسے زخمی کر دیتا ہے۔ ان دونوں مناظر میں انسان کی کوتاہی اور مشین کی خرابی ایک ساتھ موجود ہے مگر ذمہ داری ہر بار ٹال دی جاتی ہے۔
میگی جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کی نمائندہ ہے جس کے نزدیک کاروبار اور سہولت سب کچھ ہیں۔ ایک شخص کی موت کے باوجود وہ بزنس میٹنگ اور ڈیل پر زیادہ فکر مند دکھائی دیتی ہے۔ یوننگ ٹیکنالوجی کے غرور کا استعارہ ہے جو انسانوں کی بجائے روبوٹ کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، مگر انجام کار وہی روبوٹ اُسے لہو لہان کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ مسٹر ابراہام سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو مزدوروں کی قربانی کو محض چند پیسوں سے تولا جا سکتا ہے۔ یہ رویے ظاہر کرتے ہیں کہ سرمایہ داری اور سائنس پرستی نے انسان کو عدد اور مشین کے پرزے میں بدل دیا ہے۔
افسانے میں سب سے نمایاں پہلو وہ بے حسی ہے جسے مصنف نے بڑی حقیقت نگاری سے پیش کیا ہے۔ حادثے کے بعد لوگ لمحہ بھر کو رکتے ہیں، ایک نظر دیکھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس منظر میں اصل کردار وہ معاشرہ ہے جس کی اجتماعی نفسیات بے حسی میں ڈوب چکی ہے۔ رفتار کی دوڑ نے انسانی حساسیت کو مٹا دیا ہے۔
افسانے کی فنی خوبی اس کا سادہ مگر گہرا بیانیہ ہے۔ انور ظہیر رہبر نے طوالت یا پیچیدہ اسلوب سے گریز کیا ہے اور کم سے کم الفاظ میں زیادہ تاثر پیدا کیا ہے۔ منظر نگاری اتنی حقیقی ہے کہ قاری خود کو موقع پر موجود محسوس کرتا ہے۔ “سرخ دھبہ” محض ایک لفظی ترکیب نہیں بلکہ ایک تصویری علامت ہے جو قاری کے ذہن پر دیرپا نقش چھوڑتی ہے۔
تنقیدی اعتبار سے یہ افسانہ جدید انسان کے سب سے بڑے المیے کو بے نقاب کرتا ہے: ترقی اور ٹیکنالوجی کے خمار میں انسانیت کا زوال۔ مصنف نے براہِ راست اخلاقی وعظ کے بجائے محض ایک منظر تخلیق کیا ہے جس سے قاری خود سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہی کسی کامیاب افسانے کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ سوال پیدا کرے اور قاری کے اندر اضطراب پیدا کرے۔
افسانے کی نثر سادہ مگر علامتی ہے۔ مشکل تراکیب کے بجائے عام فہم جملوں سے گہرائی پیدا کی گئی ہے۔ یہ سادگی سطحی نہیں بلکہ معنی خیز ہے جو قاری کو اپنے گرد و پیش کے حالات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
آخرکار سرخ دھبہ محض ایک حادثے کی کہانی نہیں بلکہ پوری تہذیب کے زوال کا آئینہ ہے۔ اس میں کردار، پلاٹ اور فضا سب کچھ موجود ہیں لیکن روایتی معنوں میں نہیں، بلکہ جدید اور علامتی سطح پر۔ یہی وجہ ہے کہ یہ افسانہ آج کے عہد کی تلخ حقیقتوں کو اجاگر کرتا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہماری ترقی واقعی انسان کے لیے ہے یا انسان اب مشین کا ایندھن بن چکا ہے.
Leave a Reply