Today ePaper
Rahbar e Kisan International

انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی اورتجارتی پابندیاں

Articles , Snippets , / Tuesday, May 6th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہت اچھے تھے،لیکن اب تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔بھارت اور بنگلہ دیش ایک دوسرے پر تجارتی پابندیاں عائد کر رہے ہیں اور اس طرح ان دوممالک کی تجارت متاثر ہو رہی ہے۔انڈیا نے بنگلہ دیش کی ٹرانزٹ سہولت معطل کر دی ہےاور اس سہولت کی معطلی بنگلہ دیشی تجارت کو بہت بڑا نقصان پہنچارہی ہے۔بھارتی حکام نے اس اقدام کے لیےبندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر رش اورلوڈکابہانہ بنایا ہے۔بنگلہ دیش ٹرانزٹ سہولت کی وجہ سے اپنی مصنوعات بھارتی بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو برآمد کرتا تھا۔تجارت پرپابندی بنگلہ دیش جیسی ریاست کے لیےخاصہ دھچکا ثابت ہوئی ہے۔بنگلہ دیش نے بھی جوابی رد عمل کے طور پر بھارت سے روڈ کے ذریعے درآمد ہونے والے سوتی دھاگے پر پابندی عائد کر دی ہے۔بنگلہ دیش کے حکام نےیہ بہانہ بنایا ہے کہ یہ قدم مقامی ٹیکسٹائل کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے اٹھایاگیاہے۔مکمل طور پر تجارتی تعلقات منقطع نہیں ہوئے اور نہ سفارتی تعلقات منقطع ہوئے ہیں لیکن کشیدگی بڑھ رہی ہے۔یہ کشیدگی 2024 میں بڑھنا شروع ہوئی اوراب مزید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔شیخ حسینہ واجد کا جب تختہ الٹا گیا تھا تو وہ بنگلہ دیش سے فرار ہو گئی تھی اور اب انڈیا میں پناہ گزین ہو چکی ہے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بار بار تقاضا کر رہی ہے کہ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے تاکہ عدالتی کاروائی شروع کی جا سکے۔شیخ حسینہ پرکرپشن،منی لانڈرنگ اور دیگر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ممکن ہے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو موت کی سزا ملے،اگرسزائےموت نہ بھی ملے تو عمر قید کی سزا مل سکتی ہے۔انڈیا شیخ حسینہ کو پناہ دے کر اپنی برتری کا اظہار کر رہا ہے۔شیخ حسینہ کافی عرصے سے بنگلہ دیش کی حکومت سنبھال رہی تھی،اب ملک بدر ہو کر دوسرے ملک میں پناہ گزین ہو چکی ہے۔ماضی کی حکمران اب بھگوڑی کا ٹائٹل اپنے نام کر چکی ہے۔انڈیا اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی وجہ سے بھی تناؤ پایا جا رہا ہے۔ممکن ہے کچھ عرصے کے بعد انڈیاحسینہ واجد کو سزا نہ ملنے کی گارنٹی حاصل کر کے بنگلہ دیش کی حکومت کے حوالے کر دےیایہ بھی ممکن ہے کہ بنگلہ دیش کے حالات حسینہ واجد کے حق میں ہو جائیں۔انڈیا اور بنگلہ دیش ایک دوسرے پر مزید پابندیاں بھی لگائیں گےاور اس طرح حالات بدترین رخ کی طرف مڑ جائیں گے۔بنگلہ دیش کے سیاسی و معاشی اور دفاعی حالات بہتر ہیں،لیکن اتنے بہتر نہیں کہے جا سکتے کہ کسی ملک سے جنگ لڑی جا سکے یا مثالی ریاست ہونے کا دعوی کیا جا سکے۔بنگلہ دیش کی مصنوعات دوسرے ممالک میں مہنگے داموں فروخت ہوتی تھیں،پابندیوں کی وجہ سےان کی فروخت پر بہت اثر پڑا ہے۔سالانہ اربوں ڈالر کی انکم بنگلہ دیش حاصل کر رہا تھا۔انڈیا بھی سوتی دھاگے سے اچھی خاصی آمدنی حاصل کر رہا تھا،2024 میں6۔1ارب ڈالر کاسوتی دھاگہ برآمد کیا تھا۔
تجارتی تعلقات میں بگاڑکا ایک سبب بنگلہ دیش کےعبوری وزیراعظم محمد یونس کےاس بیان کو بھی بتایا جا رہا ہے،جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش انڈیا کے شمال مشرقی علاقوں کے لیے سمندری محافظ کا درجہ رکھتا ہےاور یہ بھی تجویز دی تھی کہ اس خطے میں چینی معیشت وسعت پا سکتی ہے۔خطہ میں انڈیا کی سٹریٹیجک کمزوری ظاہر کر کے انڈیا کی پریشانی میں اضافہ کر دیا تھا۔محمد یونس کادفا ع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بیان کو درست طریقے سےسمجھا نہیں گیااور توڑ موڑ کر بیان کیا جا رہا ہے۔بنگلہ دیش حکومت اتنی مضبوط نہیں کہ جنگ لڑ سکے لیکن اتنی کمزور بھی نہیں کہ اپنا دفاع تک نہ کر سکے۔اس لیے انڈیا تجارتی تعلقات کے ذریعے بنگلہ دیش پر دباؤ ڈال رہا ہے۔اگر مسئلہ انڈیا کے قابو میں نہ آسکا تو ممکن ہے جنگ شروع ہو جائے۔بنگلہ دیش پاکستان اور چین کے علاوہ دیگر ممالک پر بھی تجارتی انحصار کرکےاپنی معیشت مضبوط بنا سکتا ہے۔چین جیسی بہتر معیشت پڑوسی ممالک کو معاشی مضبوطی دے سکتی ہے،اگر پاکستان،چین اور بنگلہ دیش مل کرتجارتی تعلقات شروع کر دیں تو کم عرصہ میں معاشی خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان میں حالیہ دنوں میں تناؤ پایا جا رہا ہے۔جنگ کے امکانات پائے جاتے ہیں لیکن دونوں ریاستیں ایٹمی توانائی رکھتی ہیں،اس لیے جنگ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔بنگلہ دیش کے ساتھ بھی انڈیا مشکل سے جنگ شروع کرے گا،لیکن تجارتی تعلقات منقطع ہو سکتے ہیں۔اگر بنگلہ دیش کے ساتھ مکمل طور پر تجارتی تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں تو پاکستان کےساتھ تجارت شروع کر کےخسارہ پورا کیا جا سکتا ہے۔انڈیا کو اس بات کا احساس ہوگا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات منقطع ہونے کی صورت میں بھارتی معیشت بھی کمزور ہو جائے گی۔اگر نریندرا مودی حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ امریکہ کی طرح تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہےتو یہ خام خیالی ہےکیونکہ انڈیا اتنا مضبوط نہیں ہوا کہ ٹرمپ جیسےاعلانات کر دیے جائیں۔یہ ممکن ہے کہ کچھ دنوں یا کچھ عرصے کے بعد تجارتی تعلقات معمول پرآجائیں۔اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بنگلہ دیش کی نسبت انڈیا معاشی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہےاورانڈیا کوشاید زیادہ پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔بنگلہ دیش کے پاس دیگرآپشنز بھی ہیں اور ان آپشنز پر عمل کر کے انڈیا کو جواب دے سکتا ہے۔بنگلہ دیش چین کے ساتھ تجارتی تعلقات اگر بنانا شروع کر دے تو انڈیا کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ انڈیا بنگلہ دیش کو مزید پیچیدگیوں میں دھکیلنا بھی ضروری سمجھے گا۔انڈیا کا نقصان کم ہوگا اور بنگلہ دیش کا زیادہ،اس لیےانڈیا آسانی سےبنگلہ دیشی مذاکرات کو تسلیم نہیں کرے گا۔انڈیا اور بنگلہ دیش کے تاجران پریشانی کا بھی شکار ہیں کہ تجارتی تعلقات منقطع ہونے کی وجہ سے ان کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔بنگلہ دیش اور انڈیا لازما مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گےاور حل نکال لیں گے۔دونوں ممالک کی مجبوری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International