تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اونچی دوکان کے پھیکے پکوان.

Articles , Snippets , / Friday, May 31st, 2024

بڑا ہی مشہور محاورہ ہے اونچی
دوکان پھیکا پکوان مطلب کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی انگریزی میں کہتے ہیں
All that glitters is not gold
یعنی ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی
مگر جس بناوٹ اور دکھاوے کے زمانے میں ہم سانسیں لے رہے ہیں وہاں تو بناوٹ قدم قدم پہ ہمارے گلے کا ہار بننے کو تیار رہتی ہے. ہم جس جھوٹ کے جہان میں سانسیں لیتے ہیں وہاں بھی ہم خواہ مخواہ ہی اپنی خواہ مخواہ کی شان بڑھانے کے لیے کسی نہ کسی قسم کے دکھاوے کی چادر چاہتے یا نہ چاہتے ہوے بھی اپنے تن پہ اوڑھ کے دنیا دکھاوے کا کوی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. شادی ہی کو لے لیجیے، شادی یا نکاح نسل انسانی کے ارتقاء کے لیے اللہ پاک کی عطا کردہ اور حلال کردہ چیزوں میں سے ایک انتہائی مقدس بندھن ہے. دنیا کے ہر مذہب میں نکاح کے دو بول دو انجان لوگوں کو ایک محبت بھرے بندھن میں باندھ دیتے ہیں ایک گھر کی بنیاد ہے نکاح دو خاندانوں کے ملاپ کا نام ہے نکاح. خوشی اور سکھ کا نام ہے نکاح اب یہ ہر بشر اور ذی ہوش انسان نے خود سوچنا ہے کہ اس نے نکاح کے یہ دو بول سادگی سے مسجد، مندر، کلیسا یا گوردوارے میں اپنے مذہبی پیشوا سے پڑ ھوانے یا پڑھنے ہیں یا پھر نکاح کے اس بندھن کو کءی کءی فنکشنز کے دکھاوے میں تبدیل کرنا ہے اور اس دکھاوے پہ پہنے جانے والے ملبوسات، زیورات، کھانے پینے کے لوازمات، ہالز کی بکنگ، ہالز کی ڈیکوریشن پہ موسیقاروں کے نازو ادا پہ لاکھوں لٹانے کی ادا، آپ کی آپ کے بچوں سے بے تخاشا محبت پہ تو بلاشبہ مہر ثبت کرتی ہی ہے مگر ضروری نہیں ہے کہ یہ برانڈڈ شادی نباہ میں بھی سو فیصد پوری اترے اس کی جیتی جاگتی مثال ایک بہت ہی مشہور سیاسی شخصیت کے بیٹے کی شادی ہے جس شادی کے کچھ ماہ بعد ہی خلع لے لی گءک تھی.
اس کے مقابلے میں دو کپڑوں میں نکاح کے دع پول پڑ ھوانے والے بہت سارے کپلز میری نگاہوں کے سامنے پھر رہے ہیں جنہوں نے کسی بھی نمود نمایش کے بغیر بڑی چاہ اور خلوص سے زندگی کی نیا کو ساحل تک پہنچا دیا.کانتا کی شادی چند ماہ بعد تھی اس کی ضد تھی کہ اس نے مہندی، رخصتی اور ولیمہ پہ مہنگے ترین برانڈ کے لہنگے ہی پہننے ہیں ماں نے اپنے زیورات بیچ کے برانڈز کی تجوریاں بھر دیں جن کی قطعاً ضرورت نہ تھی مگر کم فہم بیٹی کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ اونچی دوکان کے پکوان مل بھلے سونے کے بھاو ہی رہے ہیں ہیں بالکل پھیکے.
مسز شہاب شہر کی مشہور سوشل ورکر تھیں کءی این جی اوز بڑی کامیابی سے چلاتی تھیں brand conscious تھیں لہذا ان کی بھاگ. دوڑ کا زیادہ وقت کپڑے جوتے کی selection میں یا بیوٹی پارلرز کی یاترا میں گزر جاتا تھا اور اس دوڑ دھوپ میں بھی برانڈڈ اور ان برانڈڈ کا رولہ مچا ہی رہتا تھا..مسزشہاب کی امریکہ پلٹ بیٹی اپنے دیور کی برات پہ شادی مے کپ لیے کسی مشہور بیوٹی سیلون سے تیار ہو کے گھر آئی تو اس کا آدھے سے زیادہ چہرہ جل چکا تھا اور پھر اونچی دوکان کے اس بلنڈر کو وقتی طور پر coverکرنے کے لیے ایک نیچی دوکان کی معمولی beautician کی خدمات سے استفادہ حاصل کر کے مشکل کی اس گھڑی سے نکلا گیا تھا.
شبیہا ایک مل اونر کی پندرہ سالہ بیٹی تھی پڑھائی میں اتنی اچھی نہ تھی.اسے شروع ہی سے شہر کے سب سے اچھے، مہنگے، پرائیوٹ انگریزی سکول میں داخل کروایا گیا تھا او لیول کے تین سال بھی اس نے جیسے تیسے کر کے گزار دیے مگر جب فاینل داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو سکول کی پرنسپل صاحبہ کو رزلٹ اچھا دکھانے کے لیے اپنی اس طالبہ کے والدین کو بلا عین وقت پہ فرمانا پڑ گیا کہ پلیز آپ بچی کا داخلہ پرائیویٹ طور پہ بھیج دیں غور فرمائیے کہ ڈالرز میں فیسیں بٹورنے والا سکول اور اس کا عملہ صرف اور صرف روپے بٹورنے میں مصروف ہے طالب-علم پڑھیں یا نہ پڑھیں انھیں اس سے کوی سروکار نہیں یہ پرائیوٹ مہنگے سکول بھی مہنگے بیوٹی سیلونز کی طرح اونچی دوکان کے پھیکے پکوان جیسے ہیں.
شہر کے بلکہ ملک کے سب سے بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں مسٹر افراہیم جو کہ ایک پرائیویٹ فرم کے مینیجر تھے کی ڈیڈ باڈی پڑی تھی لواحقین ڈیڈ باڈی کو بازیاب کروانے کے تمام حربے آزما کے ہار چکے تھے آنسو، سسکیاں، آہیں سب رائیگاں تھیں ہسپتال میں ہر طرح کے امراء تھے ہسپتال میں ہر طرح کے ڈاکٹرز تھے ڈیڈ باڈی کے زندہ وجود پہ علاج کی مد میں جو تجربات کیے گیے تھے ان کا معاوضہ تقریباً پانچ لاکھ بنتا تھا کروڑوں روپے یومیہ کمانے والی ہسپتال کی انتظامیہ میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ مسز افراہیم کی غربت و پسماندگی کو دیکھتے ہوے ان کے علاج معالجے پہ ہونے والی رقم کو معاف کر کے مردے کو کفن دفن کے لیے لواحقین کے حوالے کیا جاتا ہسپتال کے ریٹائرڈ گارڈ اللہ بخش کےدل میں خوف خدا پیدا ہوا اور اس نے اپنی پنشن کی رقم ہسپتال انتظامیہ کو دے کے مسٹر افراہیم کے مردے کو ہسپتال کی قید سے آزاد کروا کے کفن دفن کا بندوبست بھی کیا ہو گیا ناں اونچی دوکان کے پھیکے پکوان والی بات.
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جب یہ امراء اور روساء خیرات در خیرات کر رہے ہوتے ہیں ایک جھونپڑی کی سفید پوش عورت نے جب پیٹ کے ایندھن کو بھرنے کے لیے اپنے محلے کے ٹھیکیدار حاجی جاوید کا در کٹھکٹھایا تو اندر سے جواب آیا بیبی جمعرات کو فلاں جگہ پہنچ جانا لنگر وہیں تقسیمِ ہو گا کیونکہ وہاں پبلسٹی ہو گی کیمرے کی آنکھ ہو گی جو حاجی صاحب کی donations اورdonorsدونوں کو سب کے سامنے اچھے طریقے سے دکھاے گی ہو گیا ناں اونچی دوکان کے پھیکے پکوان.
لوگوں کے پاس چونکہ پیسہ زیادہ تھا لہٰذا برانڈڈ کپڑے
برانڈڈ جوتے
برانڈڈ گھڑیاں
برا نڈڈ فون
برانڈڈ جیولری
برانڈڈ مے کپ
برانڈڈ کھانے
تمام پیسے والوں پہ فرض ہو گیے اور غریب غربا بیچارے رہ گیے دل مسوسنے کے لیے صبر کرنے کے لیے رونے دھونے کے لیے جو بھی ہو جائے لباس جو بھی ہو تن ڈھانپنے کے لیے ہوتا ہے اور کھانا جیسا بھی ہو پیٹ بھرنے کے لیے ہوتا ہے اشیاء استعمال کے لیے ہوتے ہیں یقین کیجیے تمام برانڈز امیروں کی جیب ہلکی کرنے کا مجرب نسخہ ہیں اور اونچی دوکان کے پکوان ہمیشہ پھیکے ہی ہوتے ہیں. سلامت رہیں آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International