rki.news
ہماری شاعری خیرپور کے چند شعراء کو بہت کھلنے لگی تھی جو گل و بلبل کی داستاں، زلف و رخسار کے فرسودہ خیالات سے مزین اشعار۔ قدما کے بیان کردہ مضامین کو چبا کر ہضم کرنے کی بجائے اگل دینے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے تھے۔ یہی لوگ ہم سے نالاں رہتے تھے۔ بقول ان حاسدوں کے اس کل کے لونڈے کو ہمارے بعد کیوں پڑھوایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ تھا کہ یہ لوگ احتجاجا” مشاعرے گاہ سے بغیر پڑھے اٹھ جاتے لیکن بلا شعر پڑھے ان سے رہا بھی نہیں جاتا۔ سونے پر سہاگہ سکھر اور
اطراف کے مشاعروں میں خیرپور سے چند گنے چنے شاعروں کو مدعو کیا جاتا۔ اعزازیہ بھی دیا جاتا۔ زیادہ تر پروفیسر آفاق صدیقی ان مشاعروں کے روحِ رواں ہوتے یا ریلوے کے عذیر صاحب، میرپور خاص میں شوکت عابدی اور حدرآباد میں اختر انصاری اکبرآبادی۔
سکہر میں استاد سعید پیلی بھیتی کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے شاگرد عصمت سعیدی، معروف شاعر نکہت بریلوی دیگر معروف مقامی شعراء، روڑھی سے روزنامہ جنگ کے نمائندے مزاح گو بیربل جبل پوری شرکت کرتے۔ ہمارے نوجوان دوستوں میں حسن اکبر کمال، راشد مفتی، انوار حیدر بھی شامل ہوتے۔ج صابرظفر بھی کچھ عرصے سکہر میں رہے پھر کراچی منتقل ہوگئے۔
خیرہور سے زیادہ تر اشتیاق اظہر بعد میں منصور عاقل (اسسٹنٹ ڈاریکٹر انفارمیشن) ہمارے والد ناطق بدایونی، آغا ساحل قزلباش، نجم بدایونی، پروفیسر منظرایوبی، پروفیسر عبداللہ جاوید اور ہم فیروز خسروؔ مدعو ہوتے۔ سکہر کے زیادہ تر مشاعرے ریلوے انسٹیٹیوٹ میں ہوتے۔ رات گئے اختتام پر ہم لوگ خیرپور جانے کے لیے بس اسٹاپ پر ٹھہر جاتے۔ ادھر صبح کی اذان ہوتی اور والد صاحب ہمیں ساتھ لیے نزدیک کی مسجد کا رخ کرتے۔ ہاتھ باندھے نمازیوں کی صف میں ہم دو نفس ہاتھ کھولے بڑے اطمینان سے فرض ادا کرتے۔ نہ کوئی ڈر خوف نہ روک ٹوک۔ شیعہ سنی بھائی بھائی۔ ہم نے اپنے والد مرحوم سے یہ طریق اپنایا۔ ہمارے احباب گواہ ہیں جہاں ممکن ہوتا ہے ہم اسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ لیکن ہر مسجد میں اب ممکن نہیں رہا۔
خیر بات ہوری تھے خیرپور کے ان شعراء کی جنہیں ہم ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ سکہر کے ایک بڑے مشاعرے کے بعد خیرپور کے جن شعراء کو نہیں بلایا گیا وہ بھی مشاعرے میں موجود تھے۔ سننے میں آیا (دروغ برگردنِ راوی) مشاعرہ ختم ہونے کے بعد ان شعرا نے اسی پنڈال میں اپنا مشاعرہ کیا۔ جس کا بعد میں خوب مذاق بنا۔
شہر کے اہلِ ذوق حضرات کی داد و تحسین ہمیں خوب سے خون تر کہنے کی طرف مائل رکھے ہوئے تھی۔ لیکن حاسدین ہمیں نیچا دکھانے کے لیے بیتاب رہتے تھے لیکن کامیاب نہ ہوپاتے۔ طرحی مشاعروں میں ہمارا کلام بیشتر شعراء سے بہتر ہوتا۔ غزل، نظم، قطعات ہوں یا حمدیہ ، نعتیہ، منقبتی، اللہ کا ہم پر بڑا فضل تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان حاسدوں نے زک پہنچانے کے لیے کیا منصوبہ بنایا ہے۔اسی دوران خیرپور کے کچھ “بڑے ادب شناس حضرات” کی طرف سے ایک مشاعرے کا دعوت نامہ ہم باپ بیٹے کے نام موصول ہوا۔ یہ بظاہر عام سی بات تھی۔ وقتِ مقررہ پر ہم پہنچ گئے۔ باقی شعراء بھی آتے گئے۔ ناظمِ مشاعرہ نے اعلان کیا کہ تقدیم و تاخیر کے مسائل ہماری شعری محفلوں میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں اس لیے منتظمین نے شعراء کے باہم مشورے کے بعد یہ طے کیا ہے کہ “سینیر اور جونیئر” سے قطع نظر نشست میں تشریف فرما شعراء کو اسی ترتیب سے پڑھوایا جائے گا تاکہ شعر کا صحیح لطف اٹھایا جائے۔ شعری نشست کا آغاز ایک طرف تشریف فرما شعراء سے ہوا۔ ہم تقریبا” درمیان میں تھے جب ہمارا نام پکارا گیا تو بڑے اعتماد سے ہم نے غزل شروع کی داد کی گونج میں اچانک ہماری نظر والد صاحب پر پڑی۔ آواز حلق میں پھنس گئی، کاٹو تو بدن میں لہو ندارد۔ والد صاحب ہم سے کافی پہلے پڑھ چکے تھے۔ چشمِ زدن میں ساری سازش کے تانے بانے ہماری نظروں کے سانے بکھر گئے۔ حاسدوں کا وار کاری تھا۔ بیٹا۔۔۔، باپ کے بعد کلام سنارہا تھا۔ تقدیم و تاخیر کا تو محض بہانہ تھا۔ اس شاخسانہ کا سبب ہمارے والد محترم کی تذلیل ہمارے ہاتھوں کروانا تھا۔ داد کے طوفان میں ہم نے اپنی غزل ادھوری چھوڑی اور والد صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ آنکھوں میں آنسو اور پورے جسم میں لرزا۔ والد صاحب نے ہمارے سر پر ہاتھ پھیرا، اپنی جگہ سے اٹھے، ہمیں ساتھ لیے ایک لفظ کہے بغیر مشاعرہ گاہ سے باہر نکل آئے۔ گھر پہنچ کر بھی ہم سے کچھ نہیں کہا۔ دوسرے روز پتہ چلا کہ ہمارے اس طرح اٹھ کر چلے آنے کے بعد مشاعرہ ختم کردیا گیا تھا۔ حاسدوں کا تیر جو کارگر ہوگیا۔
شاعروں کے درمیاں جوں جوں حسد بڑھتا گیا
شاعری ہوتی گئی کم، وائری بڑھتی گئی۔
(ف ن خ)
اس واقعہ کے چند روز بعد ایک ہجویہ نظم گمنام ذرائع سے جناب تعظیم حسین نقوی کے گھر پہنچادی گئی جہاں تقریبا” روز ہی شہر کے معززین کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ اس نظم میں مجھ سمیت سب کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ ردیف تھی”آخ تھو”۔ صرف ردیف ایک مزاح گو جناب مذاق کی غزل کی تھی۔ لیکن اس ہجویہ نظم کا شاعر نامعلوم تھا۔ ہجویہ نظم کا مطلع ملاحظہ کیجیے:
” شاعر ہیں خیرپور کے خرکار، آخ تھو
یہ شاعری ہے یا کوئی بیگار، آخ تھو
نظم کیا تھی ایک ایٹم بم۔ ہر اہلِ ذوق کی زبان پر اسی کا چرچا تھا۔ کس نے لکھی، اور کیوں؟ اس سوال کا جواب ہمارے حاسدین کی وجہ سے زبانِ زدِ عام تھا۔۔۔ ہو نہ ہو اس قبیح حرکت کا مرتکب فیروز خسرو ہے۔ سب سے پہلے والد صاحب پھر دیگر نے استفسار کیا ہمارا جواب ظاہر ہے نفی میں تھا۔ اگلی قسط میں یہ ہجویہ نظم ” ( بنام شعراء خیرپور) ملاحظہ کیجیے۔(جاری ہے)
نوٹ: حضرت ناطق بدایونی(سابق انفارمیشن آفیس) کی
Leave a Reply