Today ePaper
Rahbar e Kisan International

اک شور بپا ہے ہر سو

Articles , Snippets , / Sunday, November 16th, 2025

rki.news

مرادعلی شاہد دوحہ قطر
پاکستان میں آئین کی ہر نئی ترمیم کا شور ایسے اٹھتا ہے جیسے گھر کے صحن میں نیا دروازہ لگے اور محلے والے اس کی سمت پر بھی تبصرے شروع کر دیں۔ ستائیسویں ترمیم بھی کچھ ایسی ہی ہے—کچھ لوگوں کو اس میں صبحِ نو کی خوشبو نظر آ رہی ہے اور کچھ کو پرانی دیواروں میں ایک نیا دراڑ۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ کا نظام بہتر ہو گا، آئین کی تشریح مزید مربوط طریقے سے ہو سکے گی، اور وفاقی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ بظاہر دیکھا جائے تو دلیل میں وزن ہے۔ آئینی معاملات واقعی اس قابل ہیں کہ اُن کے لیے خصوصی فورم موجود ہو، اور ججوں کی تعیناتی و تبادلوں کا کوئی واضح، متفقہ طریقہ سامنے آئے، تاکہ عدلیہ کو غیر ضروری تنقید سے بچایا جا سکے۔ اور ہاں، این ایف سی کے فارمولے پر نظرِ ثانی کی بات بھی شاید اپنے اندر ایک معاشی منطق رکھتی ہو کہ ریاست کی جیب کا توازن برقرار رہے۔
اگر غور کیا جائے تو اس سارے عمل کی تثلیث جو بنتی ہے وہ اس طرح سے ہے کہ فوجی کمانڈنگ پاور کی مضبوطی،عدالتی اصلاحات اور ججزکی تعیناتی و تبد یلی کے اختیارات اورمرکز و صوبوں کے درمیان اختیارات کے تناسب میں بھی تبدیلی ہے۔ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت بنانے کا مقصد ائین کی مزید تشریح کو ممکن بنانا ہے تاہم قانون سازوں کے مطابق اس کی ضرورت اس لئے بھی ضروری کے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو سکے اور عدالتی نظام میں چیک اینڈ بیلنس کے نظام پر عمل پیرا ہو کر لوگوں کو انصاف کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہی کہنے لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہوئے اگر ایسا ممکن نہ ہوا تویعنی ججز پر سیاسی دباو ہوا تو عدالت اور آئین دونوں جہنم واصل ہونے میں ذرا تاخیر کا باعث نہ ہوں گے۔ بہت سے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ نیا آئینی احتسابی ڈھانچہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کر سکتا ہے۔ خصوصاً، سپریم ورٹ کی کچھ اختیارات نئی آئینی عدالت کو منتقل ہونے کا امکان ہے۔ گر عدلیہ پر سیاسی یا انتظامی دباؤ زیادہ ہو، تو “آئینی تشریح” کا حق کمزور لوگوں کے حق میں نہیں بلکہ طاقتوروں کے ہاتھ میں جا سکتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 243 پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے اسے بھی قبول قبول ہے کے بعد تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے فوجی کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے میں ترمیم: کچھ رپورٹس کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ آئینی حیثیت دے کر اسے فوجی ڈھانچے میں مزید “رسمی طاقت” دے دی گئی ہے،اب اس ترمیم کے مطابق فیلڈ مارشل کمانڈنگ فورسز کے ہیڈ ہوتے ہوئے مزید پانچ سال کے لئے اپنے عہدہ پر برقرار رہیں گے۔ حامی کہتے ہیں کہ یہ قدم فوجی قیادت کو جدیدیت اور ذمہ داری کے ساتھ آئینی انداز میں مربوط کرنے کا ہے، تاکہ ملٹری اور سول قیادت کا فرق واضح ہو اور فوجی فیصلے آئینی دائرے میں آئیں۔حامیوں کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے فوجی کمانڈ کو آئینی تحفظ دینا – اور ممکنہ طور پر فیلڈ مارشل کو آئینی حیثیت دینا – یہ خطرہ پیدا کرتا ہے کہ فوجی قیادت کو سیاسی دھارے پر ایک مستقل اثر مل جائے۔ اور سیاستدانوں کی سیاسی حیثیت بہت کمزور ہو جائے گی۔دوسرے الفاظ میں عوامی اداروں کی طاقت کمزور پڑ جائے گی۔اس تثلیث کے تیسرے کونے یعنی صوبوں اور مرکز میں مالی معاملات اس پر اگرچہ پیپلز پارٹی نے تھوڑا واویلا مچانے کی کوشش کی ہے تاہم ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر انہوں نے بھی یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اس ترمیم کے پاس ہونے کے حق مین تھے۔مستقبل میں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا ادراک بلی کے تھیلے سے باہر آنے کے بعد بھی نہیں ہو پارہا بلکہ سب اہل فکر ودانش اور سیاسی مفکرین اسے آئینی بلا ہی خیال کر رہے ہیں جس کا کام بس دودھ پینا ہوگا اور حسب سابق دودھ پینے کے بعد منہ صاف کر کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بقیہ زندگی گزارنا بھی شامل ہوگا۔
میری نظر میں اس سارے عمل میں جس کا ہر کسی کو پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور کون لوگ کروانے والے ہیں آلہ کار کون ہیں۔اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے کیا ہی اچھا ہوتا اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے کوئی ایک آدھ شق عوامی اصلاحات کی بھی شامل کروالیتے تاکہ عوام کو ایک لولی پاپ دیتے ہوئے ان کے منہ بھی بند کروا دئے جاتے۔لیکن یہ سب تو تب ممکن ہوتا جب حکومئٓی ترجیحات میں عملا عوام کہیں جگہ رکھتی ہو۔ایک اور بات جس کے بارے میں کچھ سیاسی مفکر ترمیم کے منظور ہونے سے قبل اور کوئی کوئی بعد از منطوری اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس سارے عمل میں عجلت کی ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے اور وہ ہے کہ حکومت اور ادارے عمران خان کی رہائی ارو بعد میں ممکنہ پیش ہونے والے عزائم سے خوفزدہ ہو کر سب کر رہے ہیں۔لیکن میں نطور سیاسی طالب علم اس ترمیم کا دوسرا رخ بھی دیکھتا ہوں کہ کیا واقعی یہ سب عمران سے خوفزدہ ہیں؟ ایسا بالکل بھی نہیں کیونکہ جس ترمیم کو مںطور کروانے کے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے کیا خان رہائی کے بعد بھی حاصل کر پائے گا۔مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوپائے گا تو پھر ان سب کو کیا خوف؟
لیکن پھر وہی مسئلہ—یہ پاکستان ہے، یہاں ہر اچھی خبر کے پیچھے ایک سوالیہ نشان ضرور کھڑا ہوتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کا سوال بڑا سادہ مگر تلخ ہے: کیا واقعی یہ سب کچھ عدلیہ کی بہتری کے لیے ہے، یا پھر اختیارات کی نئی تقسیم کا گھن گرج ہے؟ اگر نئی آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہوتے ہیں، یا اگر ججوں کے تبادلے سیاسی اثر سے آزاد نہ رہے، تو پھر یہ اصلاح نہیں، باقاعدہ سرجری ہو گی… وہ بھی بغیر اینستھیزیا کے۔ صوبوں کو این ایف سی کے تحت جو خدشات لاحق ہیں، وہ بھی اپنی جگہ خطرناک ہیں۔ یہ ملک صوبائی محرومیوں کا پہلے ہی بوجھ اٹھائے کھڑا ہے، اگر مالیاتی اختیارات مزید محدود ہوئے تو شکایات کے نئے دفتر کھل جائیں گے۔ بعض سیاسی جماعتیں تو صاف کہہ چکی ہیں کہ اس ترمیم میں مشاورتی عمل کی کمی صاف دکھائی دیتی ہے، اور ایسی آئینی تبدیلیاں جن میں جلد بازی کی بو آئے، وہ مستقبل میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔
مسئلہ ترمیم کا کم اور اعتماد کا زیادہ ہے۔ عوام کو یوں لگتا ہے جیسے ہر نئے آئینی منصوبے کے پردے میں کوئی خفیہ خاکہ چھپا ہوتا ہے۔ فوجی کمان اور آئینی کردار کے حوالے سے اٹھنے والی بحث تو پہلے ہی فضا میں معلق ہے۔ اگر واقعی اس ترمیم کا مقصد اداروں کی حد بندی کو واضح کرنا ہے تو پھر سب سے پہلے وضاحت چاہیے—وہ جو آئین کی کتاب میں لکھی ہو، نہ کہ سیاسی تقریروں میں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترمیم ایک میٹھی گولی بھی ہے اور کڑوی دوا بھی۔ بات صرف اتنی ہے کہ کس زاویے سے اسے دیکھا جائے۔ اگر اسے وہ اصلاح سمجھا جائے جو آئینی ڈھانچے کو مضبوط کرتی ہے تو شاید یہ آگے جا کر فائدہ دے؛ لیکن اگر یہ اختیارات کی ایسی نئی ترتیب ہے جو طاقت کے توازن کو یکطرفہ کر دے، تو پھر اس کے نتائج آنے والی نسلوں تک جائیں گے۔ابھی تو بس اک شور کے سوا کچھ نہیں۔بس تیل دیکھیں اور تیل کی دھار کا انتظار کریں جوعوام کی قسمت میں لکھا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International