Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ایران اورسعودی عرب کےدرمیان بڑھتےتعلقات

Articles , Snippets , / Sunday, April 20th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

ایران اورسعودی عرب کے درمیان ایک بار پھر اعلی سطح کے رابطے ہوئے ہیں۔یہ رابطے ایک نئی سمت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔سعودی عرب اور ایران متحد ہو کر بہت بڑے فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نےایران کی اعلی قیادت سے ملاقات کی ہے۔سعودی عرب کے وزیر دفاع نے آیت اللہ خامنہ ای کو سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عزیز کا پیغام پہنچایا۔ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات وسیع کرنے کے لیے تیار ہیں۔مزید وضاحت کی کہ سعودی عرب کے ساتھ دوستی اسلامی دنیا کے مفاد کے لیےمعاون و مددگار ثابت ہوگی۔ایرانی صدر نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر خطے کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔سعودی عرب اور ایران مزید اسلامی ممالک کواپنے اتحاد میں شامل کر کےامت مسلمہ کے کئی مسائل حل کر سکتے ہیں۔او آئی سی کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔او آئی سی کےمقابلے میں ایک علاقائی این جی او بھی زیادہ کردار ادا کر لیتی ہے۔او آئی سی کا پلیٹ فارم موجود ہے،لیکن فعال نہ ہونےکی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔اب ایران،سعودی عرب، پاکستان اور دیگر ممالک ایک اتحادبنالیں تو دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔افسوس اس بات کا ہے اس قسم کا اتحاد مشکل ہوگا جو اسلامی دنیا کے لیے ایک نئی انقلابی تبدیلی لے آئے۔سعودی عرب معاشی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔تیل کی دولت سعودی عرب کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے،جبکہ پابندیوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے ایران تیل بھی فروخت نہیں کر سکتا جس سے اس کی معاشی حالت سنبھل نہیں سکی۔دونوں ممالک بہترین مستقبل کے لیے ایک دوسرے کے بہترین مددگار ثابت ہو سکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ آگے بڑھنے کی ہمت کر سکیں۔امریکہ سمیت کئی قوتیں نہیں چاہتیں کہ ایران اور سعودی عرب آگے بڑھیں۔بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے ان دو ممالک کا اتحاد مشکل ہوگااور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعلانیہ طور پر سعودی عرب کو ایران کے ساتھ اتحاد کرنے سے روک دیا جائے۔ایران اسرائیل اور امریکہ دونوں کوللکارتا رہا ہے۔موجودہ پوزیشن ایران کے لیے بہت بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے،کیونکہ امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ ایران کے پاس جوہری قوت موجود نہ ہو۔امریکہ کی پالیسی ہےکہ چوہری قوت بطور ہتھیار استعمال نہ کی جا سکےاور خطرناک ہتھیار میں تبدیلی سے پہلے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران کو مقصد کے حصول سے باز رکھا جائے۔یہ توہرایک جانتاہےکہ مکمل طور پر ایٹمی قوت حاصل کرنے کے بعد ایران سخت جواب دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ایران کی کوشش ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ بہترین تعلقات ہوں تاکہ جنگ اور مصیبت کے وقت اگر پڑوسی تعاون نہ بھی کریں تو کم از کم دشمنوں کے ساتھ بھی تونہ ملیں۔
سعودی عرب اس پوزیشن پر نہیں کہ امریکہ،اسرائیل یا کسی دوسری طاقت کو منہ توڑ جواب دے سکے۔سعودی عرب کی پالیسیاں بھی دوسروں کی مرہون منت ہوتی ہیں،لیکن اس کی مضبوط معیشت اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچنےدیتی۔ایران معاشی لحاظ سے بہت ہی کمزور ہےاور کسی بھی ملک سے جنگ کی صورت میں ایران بدترین حالات کا شکار ہو جائے گا۔سعودی عرب اور کسی بھی ملک کے سامنےامریکی پالیسیاں اچھی طرح ظاہر ہو چکی ہیں کہ امریکہ اپنے مفادات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ہونا بھی چاہیے کہ کسی ملک کی حکومت اپنی عوام کی فلاح وبہبود کے بارے میں ہرممکن کوششیں کرے۔کوششیں بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اچھائی اور برائی کا اخلاقی لحاظ سے خیال رکھنا ضروری ہے۔سعودی عرب امریکہ یا کسی اور مضبوط ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتا،اس لیے وہ دباؤ کا شکار ہو جائے گا۔سعودی عرب سمیت ہر ایک اچھی طرح جان چکا ہے کہ حالیہ جاری یوکرین اور روس جنگ میں، کس طرح یوکرین کو مجبور کیا گیا۔کینیڈا اور ڈنمارک سمیت کئی ممالک پرٹیرف عائد کر دیا گیا۔ٹیرف میں اضافہ کئی ممالک کی معیشتیں کمزور کر رہا ہے۔دیگر ممالک کے ساتھ بھی امریکی سلوک ہر ایک اچھی طرح جان چکا ہے۔سعودی عرب کی بھی کوشش ہوگی کہ امریکی دباؤ سے جان چھڑائی جائے،حالانکہ ایسا بہت ہی مشکل ہےلیکن ناممکن نہیں۔امریکہ سعودی عرب کے علاوہ کئی دوسرے ممالک کو بھی پریشان کر رہا ہے۔امریکہ اگرریاض کودھمکی دے تو ایران کے ساتھ مل کر کسی بھی قوت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
مڈل ایسٹ میں کشیدگی نےامن کو تباہ کر دیا ہے۔اسرائیل کی خواہش ہےکہ ‘گریٹراسرائیل’وجود میں آ جائےاور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے،حتی کہ مشرق وسطی کو بھی تباہ کرنے سے دریغ نہیں کیا جا رہا ہے۔امریکہ بھی اسرائیل کی ہر قسم کی مدد کر رہا ہے۔ایران اور سعودی عرب ‘گریٹر اسرائیل’ کےآگے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔اس لیےامریکہ اور اسرائیل نہیں چاہیں گےکہ ایران اور سعودی عرب متحد ہو جائیں۔ایران اور سعودی عرب معاشی کے علاوہ دفاعی لحاظ سے بھی مضبوط ہو سکتے ہیں۔جس طرح ظاہر ہو رہا ہے کہ سعودی عرب بھی ایران کے ساتھ دلچسپی بڑھانے میں اپنے عزم کا اظہار کر رہا ہے،اس طرح دیگر ممالک بھی اس اتحاد کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔اسلامی ممالک خوف اور اپنے مفادات کی وجہ سےمتحد ہونے میں ناکام ہو رہے ہیں اور یہ ناکامی ان کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ظاہر بات ہے سعودی عرب بھی بہت سی مشکلات اورمسائیل کی وجہ سےبڑی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا،لیکن ایران اور دوسرے ممالک کے ساتھ اتحاد بنا کر کافی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے فوجی کے علاوہ دیگر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں،اگر دونوں ممالک آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ان اختلافات کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اس حد تک نہیں بڑھے کہ جن کو مثالی کہا جا سکے،مگر کچھ بہتر ہو رہے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ یا دیگر طاقتیں ان دو ممالک کے تعلقات کو برداشت کر لیں گی بلکہ ان کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ تہران اور ریاض ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں۔کچھ حاصل کرنے کے لیےقربانیاں دینا پڑتی ہیں۔بڑے مقاصد کا حصول آسان نہیں ہوتابلکہ بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ایران اور سعودی عرب بھی قربانیاں دے کر دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔اس بات کا بھی اعتراف کرنا ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت سی پیچیدگیاں بھی ہیں اور وہ پیچیدگیاں اتحاد کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International