rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
چین نے اقوام متحدہ میں ایران کےخلاف پابندیوں کی مخالفت کر دی ہے۔ایران پر پہلےہی بہت سی پابندیاں لگی ہوئی ہیں اور اب مزید پابندیاں لگنے والی ہیں،جن کی وجہ سے ایران کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ایران پر مسلسل الزام لگایاجا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ایران کا موقف ہے کہ وہ جوہری توانائی کو فوجی مقاصد کی بجائےمثبت مقاصد کے لیےاستعمال کر رہا ہے۔چین نےایران کے خلاف پابندیوں کی مخالفت کر دی ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یورپی ممالک کی جانب سے اگست تک سفارتی حل نہ نکلنے کی صورت میں ایران پر پابندیوں کے انتباہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف پابندیوں کے حق میں نہیں اور اس معاملے کےسیاسی اور پرامن حل پر زور دےگا نیز چین ایران کے ایٹمی مسئلے کے پرامن حل کا حمایتی ہے۔چین کی حمایت ایران کے لیے ایک بہترین مدد ہےاور اس سے ایران کو آگے بڑھنے میں بہت مدد ملے گی۔چین اگر ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا شروع کر دے تو ایران سنبھل سکتا ہے۔چین کی معاشی حالت بہت ہی مضبوط ہےاور ایران کی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتا ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ چین ایٹمی عدم پھیلاؤ اور خطے میں امن واستحکام کی حمایت کرے گا۔چین کے علاوہ روس بھی ایران کی مدد کرنے کے لیےتیار ہے۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ یورپی پابندیوں کے روکنے کے لیے چین اور روس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔عراقچی کامزید کہنا تھا کہ یورپی ممالک کی جانب سے تہران کے خلاف پابندیوں کے فوری نفاذ(اسنیپ بیک)کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اب اگر امریکہ کے علاوہ یورپی ممالک کی طرف سے بھی پابندیاں لگ گئیں تو ایران مجبور ہو سکتا ہے کہ وہ جوہری توانائی کے سلسلے میں امریکی شرائط کو تسلیم کر لے۔چین اور روس کا تعاون ایران کے لیےبہت ہی فائدہ مند ہے،پابندیاں اگر لگ بھی جاتی ہیں تو یہ دونوں ممالک ایران کوسنبھال سکتے ہیں۔ہو سکتا ہےکچھ اور ممالک بھی ایران کے ساتھ تعاون کریں،جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔
امریکہ اور اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کے مکمل مخالف ہیں۔کچھ عرصہ پہلے امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر حملے بھی کیے اور ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بھی بنانے کا دعوی کیا گیا تھا۔اب ایران پر پابندیاں لگانے کے علاوہ حملے بھی ہو سکتے ہیں۔واضح رہے کہ برطانیہ،فرانس اور جرمنی نےبھی دھمکی دی ہے کہ اگر اگست کےآخر تک جوہری تنازعے کا سفارتی حل نہ نکل سکا تو وہ ایران پر ہتھیاروں، جوہری سازوسامان اور بینکنگ پر پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں گے۔یہ تینوں ممالک 2015 کے مشترکہ جامع منصوبہ(جےسی پی اواے)کے فریق تھے،جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام میں پابندیوں کے عوض معاشی اور تجارتی پابندیاں ختم کی گئی تھیں۔یہ معاہدہ اکتوبر میں ختم ہو رہا ہےاور اس میں اسنیپ بیک میکنزم شامل ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان ایٹمی مذاکرات کئی دفعہ ہوئے لیکن وہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔اب بھی مذاکرات ہونےوالے ہیں،ہو سکتا ہے کوئی بہترین حل نکل آئے۔بہترین حل نہ نکلنے کی صورت میں خطے میں بد امنی پھیل سکتی ہے۔چین اورروس بھی ایران کی ایک حد تک مدد کر سکتے ہیں،زیادہ نہیں۔جس طرح عباس عراقچی نے کہا ہے کہ روس اور چین کے تعاون سے یورپی ممالک کی پابندیوں کو روکنے کے لیےمل کر کام کیا جا رہا ہے،ہو سکتا ہے ایران ان دو ممالک کے تعاون سے پابندیوں کو روکنے میں کامیاب ہو جائے۔ایران پر اگر مزید پابندیاں لگتی ہیں تو ایرانی معیشت بدترین حالت تک پہنچ جائے گی۔
ایران اگر اپنے موقف پر ڈٹا رہتا ہےتو امریکہ یا اسرائیل دوبارہ ایران پر حملہ کر سکتے ہیں۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہےکہ اگرپابندیوں کوروکنےکی کوششیں ناکام ہوئیں توہمارے پاس جواب دینے کے اقدامات موجود ہیں۔ایران اگرواقعی یورنیم کو اتنا افزودہ کر چکا ہے کہ اس سے ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکیں تو ایران ان ایٹمی ہتھیاروں کو مخالفین کے خلاف استعمال بھی کر سکتا ہے۔امریکہ اور کچھ ممالک کو اسی بات کا خوف ہے کہ ایران اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ایران کی ایٹمی قوت اتنی آسانی سےبرداشت نہیں کی جا سکتی،اس لیے ایران کی ایٹمی قوت کو ختم کرنے کے لیےہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔امریکہ مسلسل ایران پر پابندیاں لگا رہا ہےاور 2018 میں امریکہ نے2015 کے مشترکہ جامع منصوبہ عمل سے علیحدگی اختیار کر کےمزید پابندیاں لگا دی تھیں۔ایران اپنی بقا اور سلامتی کے لیےمسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔اقوام متحدہ میں لگائی گئیں پابندیاں بھی ایران کوجھکانے میں ناکام رہی ہیں۔ایران آسانی سے ایٹمی صلاحیتوں سے دستبردار نہیں ہوگا،کیونکہ ایران کو یقین ہے کہ ایٹمی قوت سے دستبرداری کی صورت میں بھی اس کومعاف نہیں کیا جائے گا۔ایران ڈٹا ہوا ہے کہ وہ دھمکی یا نقصان دہ شرائط قبول نہیں کرے گا۔
ایران مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ پڑوسی اور دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہو جائیں۔بہت سے ممالک ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانےکےخواہشمند ہیں لیکن امریکی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہیں۔ایرانی تیل مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کے لیے موجود ہے مگر پابندیوں کی وجہ سےتیل کی فروخت میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔تیل فروخت کرنے کی اجازت مل جائے تو ایران بہت حد تک معاشی طور پر مضبوط ہوجائے گا۔امریکہ کے ساتھ اگراگست کےآخر تک مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو مزید پابندیاں لگ جائیں گی۔یہ نہیں کہ ایران کے ساتھ کوئی ملک تجارت نہیں کر رہا بلکہ کئی ممالک ایران کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں۔امریکہ ان ممالک پر بھی دباؤ ڈالے گا جن کے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں،تاکہ ایران کو شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے۔ایران اس وقت بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے،ہو سکتا ہے جلد ہی حالات ایران کے حق میں ہو جائیں۔
Leave a Reply