وہ سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کے پیدا ہونے سے آخری سانس تک ان کے لچھن، نازو ادا،چال ڈھال سب کچھ ہی ساری دنیا سے نرالا ہوتا ہے وہ ایک ضرب المثل ہے ناں کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند. تو بادشاہوں کے گھر گھروندوں میں پیدا ہونے ہوالے تمام نفوس ہی اپنے آپ کو انوکھے لاڈلے کے سنگھاسن پہ براجمان پاتے ہیں. آپ اور ہمارے جیسے عام لوگوں کو یہ حقیقت کھلی آنکھوں اور کھلے دلوں سے تسلیم کر لینا چاہیے کہ بادشاہ اور عام انسان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہاں ماسوائے عمر بن خطاب کے جنہوں نے حکومت کی تو انصاف کے اس باب حرمت کی بنیاد رکھی کہ ایک عام انسان بھی گستاخی کی حد تک عمر بن خطاب کے لباس پہ زیادہ استعمال ہونے والے کپڑے کی بابت سر عام سوال اٹھا سکتا تھا ورنہ تو بادشاہ، بادشاہ ہی ہوتا ہے اس کا جینا مرنا، اٹھنا بیٹھنا، رہنا سہنا، زندگی گزارنے کا انداز و اطوار اتنا شاہانہ اور امیرانہ ہوتا ہے کہ اگر اس جی تفصیلات ہمارے آپ جیسے عام انسانوں تک پہنچ جایں تو ہم ان تمام بادشاہوں کے تخت مینارے مل کے اپنے ہاتھوں سے چورا چورا کر دیں ہاں یہ ہماری بدقسمتی اور حماقت کہ ہمیں ہمیشہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پہ پٹی باندھ کے خواہ مخواہ ہی تیل نکالنے کے لیے ساری عمر گول گول داءیروں میں گھمایا جاتا رہتا ہے اور عام آدمی کی شرافت تو ملاحظہ فرمائیں کہ وہ بیچارہ آنکھوں پہ کھوپے چڑھاے بغیر کچھ سوچے سمجھے گول گول گھومتے گھومتے ہی اپنی زندگی کی ساری سانسیں پوری کر لیتا ہے اور اسے ساری عمر اپنے اوپر ہونے والی شاہوں، شہنشاہوں اور بادشاہوں کی تمام زیادتیاں ہنس ہنس کے برداشت کرتا رہتا ہے. لیکن شہنشاہوں، بادشاہوں اور عالیجاہوں کے چونچلے اور نازو ادا تو لکھے گیے اور لکھنے والوں کے قلم بھی چھینے گیے، قلم توڑے گیے،لکھنے والوں کے ہاتھ کاٹ دیے گیے اور حد تو یہ کہ لکھنے والوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا مگر کیا کریں ریت رواج ہی یہ ہے بادشاہ پیدا ہی امیر ہوتے ہیں ان کے بڑے بڑے عالیشان کءی کءی ایکڑز پہ پھیلے ہوئے محلات ہوتے ہیں محلات کی اونچی اونچی دیواریں ہوتی ہیں کءی کءی منزلیں ہوتی ہیں بڑے بڑے کمرے ہوتے ہیں بڑے بڑے کمروں میں مہنگی مہنگی قد آدم پینٹگز لگی ہوتی ہیں بادشاہوں کے آباو اجداد کی قد آدم تصاویر کے شاہکار ہوتے ہیں بڑے بڑے کمروں کی بڑی بڑی راہداریوں میں بڑے بڑے شیشے لگے ہوتے ہیں جن میں سے شاہزادے اور شہزادیاں آتے جاتے اپنی حسین و جمیل سجی سجای شکلیں اور مہنگے زیب تن کیے گیے ملبوسات دیکھ دیکھ کے مزید اتراتے ہیں اور ان کی گردن کا سریا مزید طاقت پکڑتا ہے. بڑے بڑے ڈائیننگ اور متعدد ڈرائینگ رومز میں سجے ہوئے بیش قیمت برانڈڈ فرنیچر صوفے، کرسیاں اور میز عام شخص کی حیثیت کا مذاق اڑاتے ہیں اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہیں بڑی بڑی قد آدم الماریوں میں رکھے ہوے سونے جڑے کپڑے اور ہیرے جواہرات شاہی خاندان کے لوگوں کو کسی اور ہی جہان کی مخلوق ظاہر کرتے ہیں بڑے بڑے جہازی بیڈ رومز ان میں بڑے بڑے منقش بیڈز، ملکہ عالیہ کے لیے صبح، دوپہر اور رات کے آرام کے لیے علیحدہ علیحدہ بیڈ رومز، ملکہ عالیہ کے مہمانوں کے لیے علیحدہ علیحدہ بیڈ رومز، بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ بیڈ رومز، بڑے بڑے حمام، بڑے بڑے واش رومز، کءی کءی کنالوں پہ پھیلے ہوئے باورچی خانے ان میں تین وقت پکاے جانے انواع و اقسام کے طعام اور ہر شاہی فرد کی ذاتی پسند نا پسند کے مطابق پکاے جانے والے من پسند کھاجے، سولی پہ لٹکی ہوے باورچیوں کی جانیں، اللہ جانے ان حکمرانوں کی کونسی ادا اللہ پاک کو بھا گءی کہ ان کے سوے ہوے بھاگ جاگ اٹھے پھر انھیں ہر شے ہی فراوانی میں ملی بھلے عوام
بھوکے پیٹ سوے بھلے عوام کھلے آسمان تلے سوے بھلے عوام لٹ کے برباد ہوےشہنشاہوں کی جانے جانےجوتی اور جانے جوتی بلا، حکمرانوں کا کام روزے آفرینش سے مظلوم اور نہتے عوام کے جذبات سے کھیلنا اور ان کے جان و مال پہ بڑی ڈھٹای اور دھڑلے سے قبضہ کرنا اور عوام کے خون پسینے پہ ہر طرح کی عیاشی کو عین اپنا فرض سمجھ کے انجوائے کرنا ہی زندگی کا حاصل ہے. اور غریب غربا روتے ہی رہ گیے بھلے پیٹ کی بھوک تھی یا من کی ان کی بھوک مٹانے والے اپنی عیاشیوں میں عوام کی تمام ضروریات کو یکسر بھول بیٹھے اور ایسا بھول بیٹھے کہ اب ان کی یادداشت
کا یہ خانہ تو بالکل ہی مر چکا ہے جہاں غریبوں کے حقوق کے حوالے سے کوی سوال جواب اٹھاے جانے کا احتمال ہی ناپید ہو چکا ہے حکمران طبقے کو یہ بات بڑی آسانی سے ہضم ہو چکی ہے کہ بس وہ پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوے ہیں ان کا کام ہی عیاشی کرنا ہے ان کا کام ہی اچھا کھانا اچھا پینا اچھا پہننا اوڑھنا اور اچھے اچھے محلات میں رہ کے عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہے.
بے جا ٹیکسوں کی مد میں نہتے اور مظلوم عوام کا خون چوشنے کا کوی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے. اور ایسا روز اول ہی سے ہوتا چلا آ رہا ہے تقدیر بنانے والا اس بھید سے بہتر طور پہ واقف ہے اور اس طاقت کے غیر منصفانہ نظام کو بھی وہ عطا کرنے والا بہتر سے جانتا ہے کہ اس کل ذات نے انسان کو کیا عطا کیا اور عطا ے رب سے فیض یاب ہونے والوں نے اس عطاے رب کو مخلوق خدا تک کتنا اور کس حال میں پہنچایا. اور اللہ پاک ہی کا فرمان ہے کہ ہر راعی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جاے گا اور اگر کوی اس راعی اور رعیت کے سوال جواب کا بھید پا جاتا تو یا پھر گوتم بدھ کی طرح اپنی بادشاہی اور اہل خانہ کو چھوڑ کر جنگل کا رخ کر لیتا یا پھر حضرت عمر کی طرح راتوں کی نیند حرام کر کے بھیس بدل بدل کے اپنی عوام کے دکھ سکھ کے خیال میں پل پل ہلکان رہتا اور سچ ہم نے تو سدا یہی سنا اور دیکھا ہے کہ حکمران تو ایسے ہی ہوتے ہیں پیدا ہی عیاشی اور حکمرانی کے لیے ہوتے ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com
Leave a Reply