Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بدلتا معاشرہ ، ٹوٹتے رشتے

Articles , Snippets , / Wednesday, July 16th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں کچھ دن سے ایک ناگوار سی بو فضاء میں رچی محسوس ہو رہی ہے۔ اسی علاقے کی ایک بلڈنگ میں موجود ایک فلیٹ کا دروازہ بھی کئی دن سے بند ہے ۔ سب محلے داروں کو یہ علم ہے کہ اس فلیٹ میں ایک ضعیف جیتا جاگتا زندہ انسان رہتا ہے جو کئی دن سے کسی کو نظر نہیں آیا ہے، لیکن پھر بھی کسی کی توجہ اس طرف نہیں جا رہی ۔ آخر کئی دن اس ناگوار بو سے پریشان ہوتے محلے داروں میں آہستہ آہستہ کچھ تشویش پیدا ہونے کے بعد یہ رائے قائم ہوئی کہ پولیس کو بلایا جایا، یعنی اتنی اہم رائے بھی کئی دن کی تاخیر کے بعد قائم ہو سکی۔ پولیس آئی، دروازہ توڑا اور راز کھلا یہ تعفن صرف اس فلیٹ سے نہیں بلکہ اس محلے کے ہر گھر سے آ رہی ہے جو کسی زندہ انسان کی اتنے دن کی غیر حاضری محسوس نہ کر پائے۔ گھر کے اندر 10سے 15 دن پرانی ایک سینئر اداکارہ عائشہ خان کی بے بس لاش نظر آئی جو سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اب سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے انسان کی لاش ہی سمجھا جائے یا پوری انسانیت کی لاش کہا جائے۔ ابھی تک یہ معاملہ سوشل میڈیا میں کافی گرم تھا۔ ہر طرف کفِ افسوس ملا جا رہا تھا کہ اس سے بھی بڑی خبر 9 ماہ سے غائب اداکارہ حمیرا اصغر کی منظر عام پر اس وقت آئی جب ایک پوش علاقے میں موجود فلیٹ کے مالک نے 9 ماہ کا کرایہ نہ ملنے پر عدالت سے رجوع کر کے فلیٹ کا قبضہ دلوانے کی درخواست کی۔ عدالت کے حکم پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے جب فلیٹ کا دروازہ توڑا تو اندر سے انسانیت سے اٹھتی بدبو کے بھبھوکے اس سڑاند شدہ معاشرے کی حقیقی تصویر دکھا رہے تھے۔ اب یہ سوالات تو شاید پوچھنے ہی بے کار ہو گئے ہیں کہ مالک صاحب عدالت سے پہلے بنفس نفیس خود فلیٹ دیکھنے کیوں نہ گئے؟ جب اس 9 ماہ کے دوران بجلی منقطع کی گئی تو کیا ادارے کا کوئی کارکن دروازے تک پوچھنے بھی نہیں آیا؟ اُن کو بدبو نہیں آئی؟ اداکارہ کے اتنے پروجیکٹس میں موجود ساتھیوں میں سے کوئی پوچھنے نہیں آیا کہ آخر کہاں غائب ہو؟ مسلسل فون بند ہونے پر کسی کو تشویش نہیں ہوئی؟ غرض ہر ماہ دو ماہ بعد اپنے تمام یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کرنے والے کی گمشدگی پر پورا معاشرہ یوں چپ رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں فالورز خاموش تماشائی بنے رہے پوچھا تک نہیں کہ ہماری ہر دل عزیز اداکارہ و ماڈل کہاں غائب ہے؟ ان سب سوالات کے جوابات اگر ہیں تو یہی ہیں کہ ہمارے معاشرے کی قدریں اتنی کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ ہمارے درمیان چلتے پھرتے بندوں سے اچانک میل جول بند ہو جانے کے بعد ارد گرد کے افراد، جاننے والے، رشتے دار کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟ سب اپنے معمول کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ محلے داروں کو احساس تک نہیں ہو پاتا کہ ان کے درمیان ہی موجود کسی گھر کے ایک بند کمرے میں ایک لاش پورے علاقے کی بے حسی پر ماتم کناں ہے۔ کئی دن کی غیر حاضری پر بھی تشویش نہ ہونا ایسی تشویش ناک بات ہے کہ اس پر تشویش ہونے لگی ہے۔ کیا ہم اپنے پیاروں کا روزمرہ میں حال چال تک دریافت نہیں کر سکتے۔ ان کی گمشدگی پر ہمیں تشویش تک نہیں ہوتی کہ فی الفور رابطہ کر کے ان کی تکالیف کا مداوا کیا جا سکے؟ کیا اس چمکتی دنیا جسے عرف عام میں شو بز کہا جاتا ہے ، اس سے تعلق رکھنے والے اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان کا ضمیر ان کو یہ احساس تک نہیں دلا پاتا کہ ان کے علاؤہ بھی کچھ نامور لوگ تھے جو اچانک کہیں غائب ہو گئے ہیں، یا پھر روشنی کی چکا چوند میں ان کی آنکھیں اتنی چندھیا جاتی ہیں کہ اپنے سوا کسی دوسرے کی غیر حاضری کا احساس تک ان کی روح پر کچوکے نہیں لگا پاتا؟
کیا ہمارے رشتے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ ہم چوبیس گھنٹوں میں سے چند منٹ نکال کر کسی کی خیریت تک دریافت نہیں کر سکتے؟ کیا اِن حادثات والے گھروں پر کام کرنے والے افراد کا داخلہ ممنوع تھا؟ کیا جہاں سے یہ سودا سلف لیتے تھے وہاں بھی ان کی غیر موجودگی محسوس نہیں کی گئی؟ تصور کیجئے کیا کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے معاشرے میں اس طرح کی اموات کا تصور تک کرنا بھی ممکن تھا؟ کیا یہ بے حسی ہماری دولت کے ڈھیر پر تنہا دنیا کمانے کے خواب کی ایک بھیانک تعبیر تو نہیں؟
کیا یہ معاشرے کی بگڑتی اقدار کا نتیجہ تو نہیں؟ کیا ہم ذاتی آزادی میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ کسی کی مداخلت تک ہمیں برداشت نہیں، اور کیا اس ہی کا نتیجہ ایک ایسی تنہائی کی صورت سامنے آ رہا ہے جہاں تنہا انسان کی موت پر کچھ دن صرف اس کی تنہائی ہی ماتم کر سکتی ہے۔
یقیناً کچھ دن ان واقعات پر زور و شور سے خوب بحث کی جائے گی، ہر طرف سے اس پر رائے زنی بھی ہو گی۔ کوئی قصور موجودہ معاشرے کی بے حسی کو قرار دے گا، تو کوئی شخصی آزادی کی دوڑ میں اندھے پن کو قصور وار ٹھہرائے گا، کوئی سوشل میڈیا کے پھیلتے زہر کی طرف توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کرے گا، تو کوئی رشتوں میں کم ہوتی مٹھاس اور بڑھتی کڑواہٹ کے ذائقے سے روشناس کروانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ لیکن غور کیجئے کسی ایک طرف انگلی اٹھانے سے برائی کی جڑ کا تدارک کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ جیسے نیکی کی ایک شمع سے کئی شمعیں روشن ہوتی چلی جاتی ہیں، ویسے ہی برائی کی ایک پھونک دوسری برائیوں سے مل کر وہ آندھی بن جاتی ہے جو نیکیوں کے سب چراغ آہستہ آہستہ گل کرنے لگتی ہے۔ لہٰذا ہمیں تمام ہی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بند کمرے میں پڑی لاش ان تمام عوامل سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے جس کا تذکرہ الگ الگ کرنا ممکن نہیں ۔
خدارا معاشرے کی اس گھٹن کو کم کیجئے، مادیت کے چکر سے چکرانے سے بہتر ہے صبر و شکر کا دامن پکڑنے کی کوشش کیجئے، شیطان کے چنگل سے آزاد ہونے کے لئے رحمان کے سکھائے ہوئے اس بھولے بسرے درس کو دوبارہ اس یقین سے یاد کیجئے کہ یہ ورد نا صرف خود کو بلکہ نسلوں تک کو ایسا ازبر ہو جائے کہ معاشرے کی گھٹن رحمان کے ذکر کی تازہ ہوا سے ہمیشہ کے لئےختم ہو جائے۔ دنیاوی ترقی کے جھوٹ سے مرعوب ہونے کے بجائے ﷲ کے سیدھے راستے پر چلنے والوں سے مرعوب ہونے کی روش اپنائیے۔ محلے میں سب کی خبر گیری رکھیں تاکہ سب کی بروقت مدد کے تصور پر عملی اقدامات کئے جا سکیں۔ امید ہے ہر کوئی اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ چہار سو اجالا ہی اجالا ہو جائے
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International