rki.news
بیاد رحلت- محترمہ امی جان خالدہ وڑائچ ۲۰۲۳-۱۹۵۰
مثل ایوان سحر مر قد فروزاں ھو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ھو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔ سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگھبانی کرے
۱۷ مئ وہ حزیں دن تھا کہ جس دن ایک ہللا کی بندی ، ایک نفس مطمئنہ اس جہان فانی اس دار غم و الم کو چھوڑ
کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئ- انکے پسماندگان بشمول ش وہر مصتعصم وڑائچ،بیٹا ساجد، بیٹیاں)خدیجہ و
مدیحہ( اور داماد طارق و مبشر اور پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں سب بالخصوص اوردیگر بھائ بہن اور احباب و
اقربا بالعموم اس انتقال پر مالل پر اب تک رنجیدہ و غمگین ھیں- وہ عزیز از جان ھستی جن سے انکے بچے ایک
لحظے کی جدائ نہ سہ سکتے تھےاس جہان رنگ و بو کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے سو گئیں-كل من علیھا فان و
یبقى وجه ربك ذوالجالل و اإلكرام –
انکا ذکر میں کیا کروں کہ گو انکا جسمانی پیکر تو دھان پان سا تھا مگر روحانی قد کاٹھ ظاہری قدوقامت سے کہیں
بڑا تھا-انکے جانے کے بعد یہ احساس شدت سے ھوا کہ وہ ایک گمنام ہیرو تھیں- انہوں نے بیمثال کمٹمنٹ اور بے
لوث محنت سے ظلمت کدہ انگلستان اور اپنے شہر برمنگھم میں کفر کی گھپ اندھیری رات میں اپنے حصے کا دیا
جالیا- بالکل میاں محمد بخش کے اس شعر کے مصداق۔ بال چراغ میرے عشق دیاکر دے روشن سینہ۔ دل دے
دیوے دی روشنائ جاوے وچ زمیناں
اور یہ دیاانہوں نے اپنی آخری عمر تک جالئے رکھا-بسبب روزگار شوہر کی گھر سے عدم موجودگی کے باوجود
تن تنہا اپنے بچوں کی دینی اور دنیاوی تربیت کی-تعلیم سے وابستگی جنون کی حد تک تھی-اپنے جذبہ ال زوال
سے دونوں با حجاب بیٹیوں کو اس قابل بنایا کہ وہ شعبہ طب میں کامیاب ھوئیں-بچوں کی دینی تربیت کے لئے
روز سکول کے بعد مسجد بھیجا انکا معمول تھا-نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کے مصداق انتھک محنت اور مقصد
کی لگن انکا شعار تھا-عیش کوشی کا شائبہ تک انکی زندگی میں نہ تھا-بالکل جیسے ایک مشن انہیں مال تھا جسے
انہوں نے بخوبی پورا کیا-یہ شعر پڑھتی تھیں -جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ھیں جو جانا دور ھوتا ھے
مزرع تسلیم را حاصل بتول – ایک وفا شعار اطاعت گزار بیوی تھیں-خواتین کی معمول کی گفتگو انکا خاصہ نہ
تھا- نہ چغلی نہ غیبت نہ کپڑے نہ زیور انکا مشغلہ تھے-البتہ جمعے کی نماز مسجد میں ادا کرتیں اور گھر میں
باقاعدگی سے درس قرآن اور ختم کی محفل منعقد کرتیں اور اوروں کے ہاں بھی شامل ھوتیں اور یہی انکی حسین
یادیں ہیں –
انکا سفر آخرت بال شبہ ایک سبق آموز اور جاں فزا منظر تھا-نسیان یا ڈیمنشیا کے موذی مر ض کے سبب آخری
سات آٹھ سال بال شبہ مشکل اور جانگسل تھے ہللا تعالٰی یقینا انکے گناہوں کو اس مرض کی صعوبتوں کے عوض
معاف کردے گا انشا ہللا-اپنے قریبی عزیزوں کی بھری محفل میں گھری تھیں کہ وقت مفارقت آن پہنچا – سب نے
دیکھا کہ زبان پر ذکر جاری تھا اور پھر سانسیں رک گئیں اور چہرے پر ایک نور اور سکون چھا گیا-جیسا اقبال
نے فرمایا چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست-
انا ہلل وانا الیہ راجعون- ہللا تعالٰی انکو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائیں اور ہمیں بھی انکے بتائے ھوے اصولوں پر
چلنے کی توفیق ملے- آمین!
Leave a Reply