Today ePaper
Rahbar e Kisan International

برداشت اورعدم برداشت

Articles , Snippets , / Friday, May 9th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

عدم برداشت سےمراد یہ ہے کہ برداشت بالکل کم ہو جائے۔عدم برداشت نے معاشرے میں بہت ہی بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔برداشت جس معاشرے میں زیادہ پائی جاتی ہے وہ معاشرہ ترقی یافتہ بن جاتا ہے۔انفرادی لحاظ سے بھی برداشت کم ہو رہی ہے اور اجتماعی لحاظ سے بھی،اس عدم برداشت نےبہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔چھوٹی سےچھوٹی بات بعض اوقات بہت بڑے جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے۔اسلام سے قبل چھوٹی چھوٹی باتوں پر خون ریزیاں شروع ہو جاتی تھیں۔کبھی گھوڑا دوڑانے پر جھگڑے شروع ہو جاتے تھے اور کبھی کسی جانور کو پانی پلانے کی وجہ سے لڑائیاں شروع ہو جاتی تھیں۔وہ لڑائیاں چالیس چالیس سال تک جاری رہتی۔اب بھی بہت سی لڑائیاں اور انتشار معمولی سی باتوں پر شروع ہو جاتے ہیں،ان لڑائیوں اورانتشاروں سے زمین پر بےتحاشہ انسانی خون بہتا ہے۔پورے پورے علاقے تباہ ہو جاتے ہیں۔خاندانوں میں بھی چھوٹی چھوٹی باتیں ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں،اگر برداشت پائی جائے تو مسئلے چٹکیوں میں حل ہو سکتے ہیں۔عدم برداشت ایک ایسا زہر ہے،جو معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔بعض اوقات ایک معمولی سی بات قتل تک جا پہنچتی ہے۔ایک انسان سوچتا ہے کہ ایسی بات جو قتل کرانے کا سبب بنی،اتنی معمولی سی تھی کہ تھپڑ مارنے کے بھی قابل نہیں تھی۔بات ایک قتل تک نہیں رکتی بلکہ بہت سے قتل ہو جاتے ہیں،قاتل اور مقتول کے خاندان دشمنی کے علاوہ عدالتی کاروائیاں بھی برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔بہت سا سرمایہ خرچ ہوتا ہےاور دیگر کام دھندے بھی روکنے پڑتے ہیں کیونکہ دشمنی اور عدالتی کاروائیاں مجبور کر دیتی ہیں کہ بہت سے کام رک جائیں۔دو خاندان جب دشمن بنتے ہیں تو ان کی دشمنی چند سال تک نہیں رہتی بلکہ نسل درنسل تک چلتی رہتی ہے۔اگرعدم برداشت میاں بیوی میں بھی پائی جائے تو اچھا بھلا خاندان بھی تباہ ہو جاتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ بڑی باتیں بھی برداشت کر کے خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے،لیکن بات وہی آجاتی ہے کہ برداشت کی کمی ہے۔جن معاشروں یا خاندانوں میں برداشت کا مادہ زیادہ پایا جائے وہ مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔جھوٹی انا بھی بعض اوقات عدم برداشت پر مجبور کر دیتی ہےاور اس وجہ سے انسان اچھے اور بڑے تعلقات بھی توڑ دیتا ہے۔انفرادی طور پر اگر برداشت پائی جائے تو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔گالی گلوچ،سخت الفاظ،طعنہ زنی اور چھبتے الفاظ اگر وقتی طور پر برداشت کر لیے جائیں تو مستقبل کی بڑی بڑی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کسی کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے اور نہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیاجائے جس سے دوسرے کی عزت نفس مجروح ہو۔بعض اوقات معمولی لفظ بھی دوسرے کی عزت کو تار تار کردیتا ہے یا کوئی طعنہ کسی دوسرے کو اتنا مجروح کرتا ہے کہ وہ برداشت نہیں کر پاتا۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں جس سے کسی دوسرے شخص کو تکلیف پہنچے۔
برداشت کر کے صبر کرنا بہت ہی نیک کام ہےاور اس کا اجر اللہ پاک بہت زیادہ دیتے ہیں۔کسی بھی مصیبت یا پریشانی پر صبر کرنا،برداشت کی علامت ہے۔اگر انسان کسی آزمائش میں مبتلا ہو جائےاور وہ صبر کا مظاہرہ کرے تو اللہ تعالی اس کو اس کااجرعطا کرتا ہے۔صبر اوربرداشت کرنا مومن کی صفت ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں”اور جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو وہ صبر کرتے ہیں”(سورة الحج)برداشت کا مظاہرہ کر کے اگر صبر کیا جائے تو اس کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے والا بہت بڑے خسارے اٹھاتا ہے۔اگر کوئی فرد کسی دوسرےانسان کو تکلیف یا اذیت پہنچائےاور اذیت کا شکار انسان دوسرے کو برداشت اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دے تو اللہ تعالی بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔قرآن میں کہا گیا ہے”بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”(البقرہ)کتنا بڑا انعام ہے کہ اللہ تعالی وعدہ کر رہا ہے کہ وہ صابرین کے ساتھ ہے۔دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے”اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اورصبر کی تلقین کرتےہیں”(العصر)عدم برداشت جہاں انسان کو نقصان پہنچا دیتا ہے وہاں برداشت اور صبر انسان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔معمولی معمولی سی باتوں کو برداشت نہ کرنا بہت بڑی کمزوری ہےاور اس کمزوری کا نقصان انسان اٹھاتے ہی رہتے ہیں۔برداشت اور صبر کرنے والا صحیح مسلمان کہلاتا ہے۔حدیث کے مطابق”صبر کا ایمان سے وہی تعلق ہے جو سر کا جسم کے ساتھ ہے”(بخاری)اسلام برداشت کرنے کا حکم دیتا ہےاور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ہمیشہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیےپسند کرتا ہے”(بخاری)برداشت کا مظاہرہ کرنے سے ایک دوسرے سے محبت بڑھتی ہے اور معاشرہ بھی اصلاح کی طرح بڑھتا ہے۔اسلام غیر مسلموں کے ساتھ بھی برداشت کرنے کا حکم دیتا ہے۔فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برداشت اور صبر کامظاہرہ کر کے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔اللہ تعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں”اور اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت بڑھی ہوئی تھی وہ دوست بن گیا ہے”(حم۔ سجدہ)
اس بات کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے کہ عدم برداشت معاشرے میں کیوں بڑھ رہی ہے؟عدم انصاف،لاقانونیت،دھوکہ،ظلم و زیادتی، میرٹ کی پامالی اور اس جیسی دیگر برائیاں بڑھ جائیں تو عدم برداشت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔بعض اوقات دوسرے کو خوامخواہ زچ کرنا شروع کر دیا جائے تو اخر کار اس کی برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے۔معاشرے میں انصاف کی پامالی ہو تو پھر بھی برداشت کم ہو جاتی ہے۔ظلم کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس کو سزا نہیں ملے گی،اس لیے ظلم کرتا ہےاورجس پر ظلم کیا گیا ہو،اگر اس کو یقین ہو کہ اسےانصاف نہیں ملے گا تو وہ بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ظالم کو سزا ملے اور مظلوم کو انصاف تو معاشرے میں برداشت پیدا ہو جاتی ہے۔ظالم ظلم کرتے وقت سمجھے گا کہ اس کو سزا ملے گی تو سزا کا خوف اس کو ظلم سے روک دے گااور مظلوم کو جب یقین ہو کہ اس کو انصاف ملے گا تو وہ برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کرے گا۔برداشت اور صبر بہت بڑے انسانی اوصاف ہیں اور ان کو اپنا کر معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔روز مرہ زندگی میں بھی عدم برداشت عام نظر آتی ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پرلڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں،کہیں باپ بیٹا لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کہیں میاں بیوی جھگڑتے ہوئےنظر آ جاتے ہیں۔ہمیں معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے برداشت کارویہ اپنانا ہوگا۔عدم برداشت نےبہت نقصان کر دیا ہےاور مزید نقصان سے بچنے کے لیےخود میں برداشت پیدا کرنا ہوگی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International