Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بس اور بے بس کا سفر طنزومزاح

Articles , Snippets , / Tuesday, March 4th, 2025

تحریر:اشعر عالم عماد ۔کراچی

دسمبر کا آخری ہفتہ شروع ہوتے ہی سردی کی شدید لہر نے کراچی کا رخ کر لیا تھا کراچی میں سردی گوکہ مختصر دورانیہ کی ہوتی ہے مگر یہ مختصر سردی بھی کراچی میں بھرپور اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے یہاں لوگ سردی سے بچاؤ کے لیئے ایسے ایسے لباس استعمال کرتے ہیں کے جنھیں دیکھ کے بعض اوقات تو اسکیموز کا گمان ہونے لگتا ہے۔۔
کل کراچی میں مزید شدید سردی بڑھنے کی محکمہء موسمیات نے پیشن گوئی کردی تھی مگر ہم انکی پیشن گوئیوں پر کم ہی عقیدہ رکھتے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ملازمت کے سلسلے میں کراچی آیا ہوا تھا اور کل صبح میری ملازمت کے لیئے زندگی کا پہلا انٹرویو تھا۔جس کے لیئے میں نے رات سے ہی تیاری شروع کردی تھی رات کی سخت سردی بتا رہی تھی کہ صبح اٹھ کر نہانا اور شیو کرنا اتنا آسان نہ ہوگا تو یہ دونوں کام رات ہی کو انجام دیئے اور آنکھوں میں مستقبل کے سپنے سجائے سو لیئے۔۔
صبح آلارم کی آواز سے آنکھ کھلی تو جلدی سے خود کو لحاف سے الگ کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ بجنے والا تیسرا اور آخری آلارم الرٹ تھا دو تین آلارم تو پتا نہیں کس غشی میں ہم بند کرچکے تھے بحر کیف بادل ناخواستہ اٹھے اب جو منہ ہاتھ دھونے کے لیئے پانی میں ہاتھ ڈالا تو وہ ایسا سن ہوا کے ایک لمحہ کو تو یوں لگا جیسے انگلیاں کٹ کے گرچکی ہیں۔۔
حواس کچھ بحال ہوئے تو پانی کا ایک چھپکا چہرے پر بھی مارا تو یوں لگا جیسے چہرہ مٹ گیا ہے۔ بحر کیف یخ بستہ پانی سے بمشکل ہاتھ منہ دھو کر باہر آئے اور چائے بنانے کے لیئے چولہا جلانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا گیس غائب ہے۔۔۔۔۔ ہم نے حکومت کو کوسے دیئے بغیر چولہا بند کیا اور چپ چاپ کپڑے بدلے اوپر سے کوٹ پہنا ٹائی باندھی اور گھر سے باہر نکل آئے۔۔۔
موسمیات کی پشن گوئی درست تھی یعنی آج شدید سردی تھی ہم کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے ابھی چار قدم ہی چلے تھے کے ایک انجان ہاتھ نے ہمارے کندے کو دستک دی۔۔۔تو ہم نے جیسے ہی چہرہ گھما کے دیکھا تو گویا چینخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔
یہ انسان نما شخص اس وقت اپنے لباس سے ہیلون لگ رہا تھا۔۔۔اُس نے سردی سے بچاؤ کے لیئے مفلر کو اس سختی سے اپنے چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا جیسے لوہا کاٹنے کے لیئے شکنجہ میں کسا جاتا ہے میں حیرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں ابھی ایستادہ تھا کہ اس کے پان سے رنگین دانت باہر آئے۔۔اور پھر اس نے مجھ ایسے لہجہ میں بات کی جیسے میرے دادا جی غسل کے لیئے غرارے کیا کرتے تھے اس کی بات میں سمجھنے سے قطعی قاصر رہا ۔۔۔
اس نے میرے چہرے کے تاثرات بھانپ کر سمجھ لیا کہ میں غیر مقامی ہوں اور غرارہ والی زبان کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھا اور سامنے ایک دیوار پر (جس پر لکھا تھا یہاں تھوکنا منع ہے) اس زور سے پچکاری ماری کے ساری لکھائی رنگین ہوگئی۔
اس نے مفلر سے اپنا منہ صاف کیا اور کہا “بھائی میاں کا یاں نئے آئے ہو” ؟ ہمیں کراچی میں اتنی دریدہ اردو سن کر ایک جھٹکا لگا مگر ہم نے پھر بھی اثبات میں سر ہلادیا۔۔ اکیلے کاں چلے جارہے ہو اتنی صبحو صبحو ۔۔۔ وہ ایک بار پھر ٹانگیں توڑ اردو میں بولا۔۔۔
ہم نے مدعا بتایا تو وہ حضرت پہلے مسکرائے پھر بولے “چلیں ہم بھی اشٹاف تک جارہے ہیں آپ کے ساتھ چلتے ہیں تا کہ ایک سے بھلے دو ہوں گے تو کتوں سے محفوظ رہیں گے” وہ غالباً اسٹاپ کہنا کہنا چاہ رہے تھے۔۔۔ ہم نے ان کی اردو کے آگے خاموشی سے ہتھیار ڈالے اور ساتھ ہولیئے۔
رستے بھر وہ ہمارے دماغ اور اردو دونوں کا بیڑہ غرق کرتے رہے باتیں کرتے کرتے یکایک انہوں نے یہ کہتے ہوئے دوڑ لگا دی کہ ہماری بس آرہی ہے۔۔۔۔
مگر صاحب ان کا دوڑنا آوارہ کتوں کی نیند میں خلل ڈالنے کا جرم ٹہرا اور ان میں سے پہلے ایک بھونکا پھر دوسرا اور پھر ہر طرف سات بےسرسوں کی سرگم چھڑگئی۔ ہم بھی احیتاطاً ایک دو قدم دوڑے مگر جب دیکھا کہ یہ کتے کافی آرام طلب ہیں اور صرف بھونکنے پر اکتفا کرتے ہیں تو پھر ہمارا خوف بھی جاتا رہا ہم نے بھاگنے کا ارادہ ترک کیا مگر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔۔۔ ہم نے دیکھا کہ وہ صاحب کبھی سیٹیاں مارتے کبھی مفلر کو فضا میں لہراتے سرپٹ بھاگے جا رہے تھے ان کی کوشش رنگ لائی اور وہ بلآخر بس رکوانے میں کامیاب ہوئے اور برق رفتاری سے بس میں سوار بھی ہوگئے ۔۔۔
ہم جب اسٹاپ پر پہنچے تو وہاں کھڑے ایک صاحب سے معلوم ہوا کے ہماری مطلوبہ نمبر والی بسوں کی تعداد بہت کم ہے جو دیر سے بھی آتی ہے اور شدید بھری ہوئی بھی آتی ہے ۔۔۔ مشورہ ملا کے جیسے ہی وہ بس آئے۔۔ آپ کو لپک کر اسے پکڑ لینا ہے ۔۔۔ ہم نے محسوس کیا کے وہ صاحب بھی بس کے لیئے ایسے ہی تیار کھڑے ہیں جیسے ہاکی کے کھلاڑی پلانٹی کارنر میں بال کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔۔
انھیں دیکھ کر ہم بھی ہوشیار کھڑے ہوگئے اتنے میں دور سے ہماری مطلوبہ بس آتی نظر آئی تو ہم نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کے لیئے ہاتھ دیا مگر وہ رکی نہیں بلکہ کافی فاصلے کے بعد جا کر رفتار میں تھوڑی دھیمی ہوگئی۔۔۔ کچھ آوازوں نے ہمیں پکارا ۔۔۔ او بھائی اسے دوڑ کے پکرو اگر یہ نکل گئی تو آدھا پون گھنٹے بعد دوبارہ آئے گی یہ سنتے ہی ہم بھی دوڑے مگر جیسے ہی بس کے قریب پہنچے تو اس نے رفتار بڑھادی ہم نے بھی ہمت نہ ہاری اور اپنی رفتار بڑھاتے ہوئے بلآخر اس میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔۔۔
ہم ایک کونے میں چپ چاپ کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کچھ ہی لمحہ بعد بس کنڈیکٹر وارد ہوا اور ہم سے کرایہ وصول کرتے ہی ہمیں تھوڑا آگے ہونے کو کہا۔۔۔
ہم چند قدم آگے کھسک لیئے۔۔ ہم نے دیکھا کہ ایک صاحب اس پوزیشن میں ہیں کہ اب اترے کے جب اترے تو ہم یہ سوچا کے شاید یہ اترنے والے ہیں اس لیئے ہم ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے کے یہ اتریں گے تو ہم بیٹھ جائیں گے۔۔۔ مگر وہ صاحب کچھ دیر کے لیئے اٹھنے والی حالت میں آتے، کھڑکی میں ادھر ادھر دیکھتے اور پھر دوبارہ اطمینان سے بیٹھ جاتے ان کی حقیقت ہم پر اس وقت کھُلی بھری جب ان کے اٹھنے والی حالت کے دوران ہم نے قریب سے کچھ بدبو محسوس کی ۔۔۔اب ہمیں معلوم ہوا کہ موصوف اپنے معدے میں کسی ان دیکھی گیس کے ساتھ حالاتِ جنگ میں مبتلہ تھے۔ ہم وہاں سے منہ موڑ کر دوسری جانب کھڑے ہوگئے۔۔۔ایک دو دفعہ تو ہمارے سامنے والا بندہ سیٹ سے جگہ خالی کرکے اٹھا بھی مگر ہم جونہی بیٹھنے کی کوشش کرتے پتا نہیں کہاں سے کوئی بندہ آتا اور کمال خوبصورتی ہمیں ڈاج دیتا ہوا سیٹ پر بیٹھ جاتا۔۔ایک دو دفعہ تو ہم نے اپنے تئیں ہوشیار بنے کی کوشش کی اور جگہ خالی ہونے پر سیٹ پر بیٹھ بھی گئے مگر بعد میں معلوم ہوتا کوئی ہم سے پہلے بیٹھ چکا ہے اور ہم اس کی گود میں بیٹھے ہیں۔۔۔ ہم شرمندہ ہوتے معذرت کرتے اور گود سے اٹھ جاتے۔۔۔کچھ ہی دیر میں گاڑی اسقدر بھر چکی تھی کے مثل تِل دھرنے کو جگہ نہ رہی تھی مگر حیرت انگیز طور پر ڈرائیور حفظِ ماتقدم کے تحت گاڑی ہر اسٹاپ پر روکتا رہا اور کنڈیکٹر نئے پیسنجر کی جگہ بناتا رہا۔۔اس تمام کاروائی کے دوران کنڈیکٹر ہمارے کاندھے کو ہر بار تپھکی دے کر بہانے سے کرایہ مانگتا اور شکل یاد آنے پر معذرت طلب کرتا اور ساتھ ہی مودبانہ درخواست کرتا کے تھوڑا آگے ہو جائیں ۔۔ ہمیں یہ بات کافی دیر بعد پتا لگی کہ یہ کنڈیکٹر کی نئے آنے والوں پیسنجروں کے لیئے جگہ بنانے کی ایک خاص تکینیک تھی بہرحال ہم ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے بس کے پہلے دروازے سے آخری دروازے پر پہنچ چکے تھے بس کی رفتار اس قدر سست تھی کہ یہ سمجنا دشوار تھا کہ بس چل رہی ہے یا حالتِ سکون میں ہے مگر کچھ ہی دیر بعد اچانک کنڈیکٹر نے کسی ریڈ انڈین کی طرح کسی غیر مانوس زبان میں ایک نعرہ بلند کیا اور ساتھ ہی بس کی چھت کو یوں پیٹا جیسے کوئی آفت آگئی ہو۔۔۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کے بس گویا جیٹ طیارہ بن گئی کسی مسافر کو ایک اسٹاپ آگئے تو کسی کو دو اسٹاپ آگے اتارا۔۔۔۔
ہمارا اسٹاپ قریب آنے لگا تو ہم نے گیٹ تک پہنچنے کے لیئے اپنی کوششیں شروع کردیں۔۔۔ چند قدم کے فاصلے پر گیٹ تھا مگر بھی اس تک پہنچنے کے لیئے ہمیں گویا کے ٹو سر کرنا پڑا۔بحرکیف ہم جب تک گیٹ پر پہنچے تو ہمارا اسٹاپ کم سے دو اسٹاپ پیچھے نکل چکا تھا ۔۔ ہم نے کنڈیکٹر کی منت سماجت کے بعد گاڑی رکوانے کی درخواست کی تو ڈرائیور نے ہماری حالات پر رحم کھاتے ہوئے آخری موقع فراہم کیا اور گاڑی کو روکنے کیبجائے اس کی رفتار ہلکی کردی تو کنڈیکٹر نے ہمیں او بھائی جلدی اترو پیچھے گاڑی لگی ہوئی ہے ہم نے اسی لمحہ کو عافیت سمجھا اور بس سے کودنے اور گرنے کی درمیانی حالت میں یوں باہر آئے کے خود کو روکنے کے لیئے باقاعدہ بریک لگانی پڑی۔ حواس بحال ہوئے تو دیکھا ٹائی غائب تھی، کوٹ کی جیبیں باہر نکلی ہوئی تھیں،اور نظر کا چشمہ ایک کمانی سے محروم تھا۔۔۔
ہمیں چند لمحہ ایسا لگا۔۔۔ جیسے ہم بھی پی کے جیسے (ایلین) ہوں اور ہمیں بھی کسی تیسری دنیا میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو دیکھا ہمارا اسٹاپ کاف دور نکل چکا ہے ۔۔۔
سخت سردی بھی ہمارے غصہ سے کھولتے ہوئے سینہ کو ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہی۔۔۔
ہم نے ممکنہ حد تک اپنا حلیہ درست کیا اور اپنی منزل کی جانب پیدل چل پڑے۔۔
لیجئے صاحب یہاں سے بس کا سفر ختم ہوتا ہے اور ایک بے بس کا سفر شروع ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International