Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بلوچستان میں بدامنی — امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

Articles , Snippets , / Tuesday, June 24th, 2025

rki.news

(تحریر احسن انصاری)

پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کئی دہائیوں سے بدامنی اور شورش کا شکار ہے۔ حکومتوں کی مسلسل کوششوں اور دعوؤں کے باوجود، بلوچستان آج بھی بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت اور سیکیورٹی میں باقی ملک سے پیچھے ہے۔ شدت پسند اور علیحدگی پسند عناصر نے اس صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ موجودہ حالات نہ صرف بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ پاکستان کے مجموعی استحکام کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔

بلوچستان کی تاریخ مختلف ادوار میں شورش، محرومی اور سیاسی نظراندازی کی کہانی سناتی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک یہاں کئی مسلح بغاوتیں ہو چکی ہیں، جن کی بنیادی وجہ مقامی لوگوں کا سیاسی محرومی، معاشی پسماندگی اور ثقافتی شناخت کے تحفظ کے حوالے سے عدم تحفظ رہا ہے۔ مقامی آبادی کا خیال ہے کہ صوبے کے قدرتی وسائل — جیسے گیس، معدنیات، اور ساحلی پٹی — کا اصل فائدہ انہیں نہیں بلکہ دیگر علاقوں کو پہنچ رہا ہے۔ انہی محرومیوں کے پس منظر میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے شدت پسند گروہوں نے جنم لیا، جو زیادہ خودمختاری یا علیحدگی کے مطالبات لے کر ریاستی اداروں اور عام شہریوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کو حکومتِ پاکستان اور کئی عالمی ادارے دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ یہ تنظیم بلوچستان میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، جن میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اور سیکیورٹی فورسز پر حملے شامل ہیں۔ ان حملوں میں درجنوں سیکیورٹی اہلکار، سیاسی رہنما، قبائلی شخصیات اور بے گناہ شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔

قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ ان شدت پسند گروہوں کو بعض بیرونی قوتوں کی خفیہ حمایت حاصل ہے، خاص طور پر ہمسایہ ملک بھارت، جو بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں ملوث پایا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس اور متعدد گرفتار شدہ دہشت گردوں کے بیانات سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ بھارت مختلف طریقوں سے ان گروہوں کو مالی معاونت، تربیت، اور اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ ان کا مقصد بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا، عوام میں ریاست کے خلاف نفرت پیدا کرنا، اور پاکستان کو عالمی سطح پر غیر مستحکم دکھانا ہے۔بھارتی مداخلت نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، اور اس کے خلاف ملکی سطح پر مؤثر سفارتی، عسکری اور خفیہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں بلوچستان میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب معروف قبائلی و سیاسی رہنما میر عطا الرحمٰن مینگل کو ایک دہشت گرد حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس حملے میں ان کا بیٹا بھی شدید زخمی ہوا۔ یہ سانحہ بلوچستان کے عوام کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ میر عطا الرحمٰن نہ صرف ایک مدبر اور عوامی رہنما تھے بلکہ وہ امن، مذاکرات اور ترقی کے داعی بھی تھے۔ انہوں نے بلوچستان میں تعلیم، ہم آہنگی اور قبائلی اتحاد کے لیے بے شمار کوششیں کیں۔ ان کی شہادت بلوچستان کی قیام امن کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسند عناصر کسی کو بھی بخشنے پر آمادہ نہیں۔ انسانی اور سماجی اثرات
صوبے میں جاری بدامنی کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں خاندان اجڑ چکے ہیں بلکہ لاکھوں افراد خوف، بے یقینی اور محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کئی علاقوں میں اسکول بند پڑے ہیں، تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو چکی ہیں اور طبی سہولیات ناپید ہیں۔ علاقے کے نوجوان ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے گھبرا رہے ہیں، اور بہت سے خاندان اپنے علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ترقی کی راہ میں رکاوٹیں
بلوچستان کی بدامنی نے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے میگا پراجیکٹس بھی ان حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ چینی انجینئرز، مزدوروں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے اس بات کی دلیل ہیں کہ شدت پسند ترقی کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

مقامی آبادی اکثر ان منصوبوں سے جُڑی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے عمل سے محروم رہتی ہے، جس سے احساسِ محرومی مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی، ناقص گورننس، اور مقامی اعتماد کی کمی اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں وفاقی حکومت نے بلوچستان کی صوبائی قیادت اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد امن قائم کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ مقامی برادریوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع، فنی تربیت، صحت اور تعلیم کے منصوبے شامل ہیں۔

سیکیورٹی ادارے اور سول حکومت آپس میں قریبی تعاون سے علاقے میں امن بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شدت پسندی سے تائب ہونے والے افراد کی بحالی اور دوبارہ معاشرے میں شمولیت کے لیے بھی پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ انہیں دوبارہ امن کی راہ پر لایا جا سکے۔

وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ صرف طاقت کے ذریعے امن قائم نہیں کیا جا سکتا — اصل حل مقامی شراکت، سیاسی مشاورت، اور انصاف کی فراہمی میں ہے۔ حکومت پرعزم ہے کہ بلوچستان کو ایک پرامن اور ترقی یافتہ صوبہ بنایا جائے گا، جہاں ہر فرد خود کو محفوظ، بااختیار اور شریک محسوس کرے۔

بلوچستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ میر عطا الرحمٰن مینگل جیسے امن پسند رہنماؤں کا قتل اس بات کی علامت ہے کہ پرتشدد عناصر کسی کی آواز دبانے سے نہیں ہچکچاتے۔ صوبے میں بدامنی کی ایک بڑی وجہ بیرونی مداخلت، خاص طور پر بھارت کی خفیہ سرپرستی ہے، جس کا مقصد پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرنا ہے۔

بلوچستان کی ثقافت، وسائل اور اسٹریٹجک اہمیت پاکستان کے مستقبل کے لیے کلیدی ہے، لیکن جب تک عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوتا، اور ان کے جائز مسائل کا حل نہیں نکالا جاتا، امن کا قیام ممکن نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ کوششیں، عوام کی شراکت، قبائلی رہنماؤں کی شمولیت اور خلوص نیت سے کیے گئے اقدامات بلوچستان کو ایک پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ صوبہ بنا سکتے ہیں — اور یہی پاکستان کی مضبوطی اور بقاء کی ضمانت ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International