rki.news
{اردو میڈیم سے انگلش میڈیم۔ انجر پنجر کیسے ڈھیلے ہوئے۔ سائکل اور فریبِ راہ۔ ہماری پہلی نظم وہ بھی مزاحیہ}
نئے مکان میں منتقلی سب کو ہی راس آئی۔ بڑی آپا نے صحت مند ہوکر اپنی تعلیمی سرگرمیاں پھر سے شروع کردیں۔ بڑے بھیا کو پہلی نوکری خیرپور ماچس فیکٹری (ریلوے اسٹیشن کے قریب) میں مل گئی۔ سو روپئے ماہانہ۔ مزدوروں کی آمد و رفت کا روزنامچہ مرتب کرنا۔ کالج قریب تھا،(ناز ہائی اسکول، بالائی منزل) بھیا کی پڑھائی کا بھی کوئی خاص ہرج نہیں ہوتا تھا۔ اجازت لے کر اپنی حاضری بھی لگوا آتے۔
تھا۔
1961 میں ہم نویں جماعت پاس کرکے دسویں میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ہمارا Pre- Matric اب Matric ہوگیا ہے ۔ اس زمانے میں میٹرک گیارہ جماعتوں کا ہوتا تھا۔
سندھ میٹرک بورڈ کے اعلامیہ کے مطابق میٹرک گیارہ کی بجائے دسویں جماعت کا ہوگیا ۔ یوں ہم نے ایک سال پہلے ہی 1962 میں میٹرک کرلیا۔
ہم جماعت دوستوں میں جاوید علی شاہ (پیپلز پارٹی کے سینیٹر)، پرویز علی شاہ، ڈاکٹر رفیق الحسن باقری(جیولوجسٹ)، پروفیسر خورشید، ظفر عباس، یامین قریشی وغیرہ شامل تھے۔
ہماری ٹیوشن کی آمدنی بھی اب بڑھ گئی تھی۔ اب ایک کی بجائے چار ٹیوشن کی رقم زیادہ تر رسالوں، کتابوں کی خریداری میں کام آتی۔ خالہ زاد بھائی بینک میں ملازم تھے ان کے ذریعے BankLoan پر حاصل سائیکل کی بیس روپئے ماہوار قسط بھی ہم اسی میں سے ادا کرتے۔ پھر بھی اوپر کے خرچے کے لیے کافی پیسے بچ جاتے۔
ہمیں دوستیاں کرنے کا نہ پہلے شوق تھا نہ بعد میں کبھی رہا۔ باہر کی حد تک سلام دعا۔
رات کا کھانا کھاکر ہم اپنے کمرے(اسٹور) کا رخ کرتے۔ چائے اور کتاب پڑھے بغیر نیند نہ آتی۔ صبح سویرے اٹھنے کی عادت اسی چائے (Bed Tea) وجہ سے پڑی ساتھ صبح کی سیر (مارنگ واک) کا شوق بھی پروان چڑھا۔ اپنے گھر سے فیض محل کے پیچھے بڑی نہر تک۔ Brisk Walk۔ ان دونوں کی چاہ (چائے ، واک) آج بھی دم کے ساتھ ہے۔
میٹرک کے امتحان کے لیے ہمیں دو سال کا کورس ایک سال میں پورا کرنا پڑا۔(دسویں اور گیاریوں جماعتوں کا)۔ نتیجتا” میٹرک درجہ سوم میں پاس کیا۔ اس زمانے میں ٹیوشن کا رواج بہت کم تھا۔ اور استطاعت بھی نہیں تھی۔ کمانے والا ایک اور کھانے والے نو جنے۔
ہم سے بڑے تینوں بہن بھائیوں نے آرٹس کے مضامین لیے ہوئے تھے۔ ابا کے خیال میں ہم بہت ذہین تھے سو ہمیں فرسٹ ائر سائنس میں داخلہ دلادیا گیا۔ آپ خود انصاف کریں، اردو میڈیم، تھرڈ ڈویژن میٹرک پہ کیا گزرتی ہوگی۔ فرسٹ ائر پری میڈیکل کی تمام کتابیں انگریزی میں، پڑھائی بھی انگریزی میں، لے دے کے ایک قومی زبان اردو کی کلاس جس کی کلاس آج تک لی جاتی ہے۔ کرتا نہ کرتا کیا۔ قہر درویش بر جانِ درویش۔
بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر ، تھک ہار کر ذہن کو تازہ کرنے کے لیے زلفِ غزل کی مشامِ جاں کا سہارا لینا پڑتا۔ چند گھنٹے آرام کرنے کے بعد گھڑی کا الارم ٹھیک ساڑھے تین بجے جگادیتا۔ چار سے چھ بجے تک مابدولت چائے کے تازہ کپ کے ساتھ فزکس، کیمسٹری، بایو کی کتابوں میں خود کو گم کردینے کی ناکام کوشش کرتے رہتے۔ صبح باہر کا ایک چکر (مارنگ واک) ، ناشتہ اور پھر کالج کا رخ۔ شام کے معمولات وہی پہلے جیسے۔ یہی طریق ہمارا زندگی بھر رہا۔ آج بھی لکھنے پڑھنے کا ہر عمل صبح کے انہی دو گھنٹوں، (چار سے چھ بجے) تک میں مکمل ہوتا ہے۔
اسی دوران ایک روز ٹیوشن پڑھاکر ہم نکلے تو سائکل نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ گھر سے تین میل کا فاصلہ، مغرب کا وقت، دور دور پکنچر لگانے کی دکان کا پتہ نہ تھا۔ چار ناچار کافی آگے تک اپنے بوجھ کے ساتھ سائکل کا بوجھ لیے گھسٹنا پڑا تب ایک تانگے والا نظر آیا، جان میں جان آئی۔ تانگے کی پچھلی ڈھلواں سیٹ پر بیٹھ کر سائیکل سنبھالے رکھنا موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے سے کہیں مشکل کام تھا۔
اسی دوران ایک نظم نے وارد ہونا شروع کردیا۔
گھر پہنچ کر پہلے اپنے انجر پنجر جو ڈھیلے ہوگئے تھے وہ کسے اس کے بعد نظم کا تانا بانا بننا شروع کیا۔ آپ بھی لطف اٹھایے۔
“سائیکل”
(مزاحیہ نظم)
کس کس طرح بشر کو نچاتی ہے سائیکل
ہر ہر قدم پہ شور مچاتی ہے سائیکل
نیچے کبھی کسی کو گراتی سائیکل
اوپر کبھی کسی کو بٹھاتی ہے سائیکل
لیکر ہوا کے دوش پہ جاتی ہے سائیکل
یوں دل کو ہر نفس کے لبھاتی ہے سائیکل
بچے جو ہیں وہ قینجی لگاتے ہوئے چلے
اپنی اکڑ جوان دکھاتے ہوئے چلے
“کچھ لوگ” آنچلوں کو اُڑاتے ہوے چلے
بوڑھے بھی داڑھیوں کو ہلاتے ہوئے چلے
کیا رنگ و روپ اپنا دکھاتی ہے سائیکل
کسی کسی طرح بشر کو لبھاتی ہے سائیکل
سچ ہے کہ خاکسار ہے کرتی نہیں غرور
ہر کام پر ہمیشہ یہ کہتی ہے جی حضور
جاتی ہے دوڑ دوڑ کے نزدیک ہو کہ دور
لاکھوں ہیں خوبیاں مگر اک بات ہے ضرور ہے
اکثر “فریبِ راہ”؎ٰ کھلاتی ہے سائیکل
کسی کسی طرح بشر کو نچاتی ہے سائیکل(1962)
ایک دن ہمارے ساتھ بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ سردیوں کی راتیں وہ بھی اندرون سندھ۔ ہم حسبِ معمول پڑھنے کے لیے ساڑھے تین بجے رات کو اٹھے۔ باورچی خانہ میں جاکر چائے بنائی، کچھ بسکٹ لیے اور ٹرے اٹھا کر کمرے کا رخ کیا۔ ایک بات بتاتے چلیں کہ ہم چائے بہت اہتمام سے پینے کے عادی رہے ہیں۔ چائے دانی میں دم چائے، ٹی کوزی سے ڈھکی۔ دودھ چینی دان ، یہ سب ٹرے میں سجاکر اپنے کمرے میں جاکر پیتے تھے۔ والدہ مرحومہ کہا کرتیں کہ خسرو اپنا نوکر خود ہے۔ غرض اس روز بھی ہم ان لوازمات سے بھری ٹرے لیے جیسے ہی کچن سے صحن میں آئے تو خوف کی تیز لہر ریڑھ کی ہڈی میں تیرتی چلی گئی۔ صحن کی دیوار کے اوپر کسی کے دو ہاتھوں کی دسوں انگلیاں دیوار کو گرفت میں لیے نظر آئیں جیسے کوئی دیوار پرچڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ (جاری ہے)
(فیروز ناطق خسروؔ)
؎ٰ پنکچر
Leave a Reply