rki.news
(آپ بیتی قسط نمبر 47 پارٹ 1)
{( کالج آف ایڑوناٹیکل انجیرینگ کورنگی کریک کے دو بڑے مشاعرے)۔ (کمانڈنٹ کالج باذوق آفیسر لیکن۔۔۔ افسر زیادہ)۔ (حمایت علی شاعر اور ہم)}
کالج کمانڈنٹ ائرکموڈور کمال مسعود بہت باذوق شخص تھے۔ ان کی خواہش پر بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔
ونگ کمانڈر رئیس کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔کراچی حیدرآباد کے معروف شعراء کو مدعو کیا گیا۔ ہم بھی “بحیثیت شاعر” بلائے گئے تھے۔ ورنہ ایک جونیر کمیشنڈ آفیسر کے پرِ پرواز آفیسرز میس کی ہوا لگتے ہی جلنے لگ جاتے ہیں۔
ڈنر کے وقت حمایت علی شاعر ، ہمارے پاس آکر کہنے لگے فیروز خسرو مجھے مشاعرہ کی نظامت کے لیے کہا گیا ہے ایسا کرو کہ تم نظامت کرلو۔ ظاہر ہے ایک سنیئر شاعر بحیثیت ناظم پہلے پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ ہم نے کہا کمانڈنٹ پسند نہیں کریں گے۔ اس پر حمایت بھائی بولے میں کمال مسعود صاحب سے بات کرلیتا ہوں۔ کچھ دیر بعد آکر کہنے لگے۔ سوری خسرو، کمال مسعود صاحب نے کہا کہ
“Such types of our functions only conducted by an officer and he is not an officer.”
ہمیں پہلے سے اندازہ تھا اسی لیے حمایت بھائی کو ہم منع کر رہے تھے لیکن اس وقت یہ سن کر شدید دکھ کی ایک لہر ہمارے اندر دوڑ گئی۔
اسٹیج پر سبھی معروف شعراء موجود تھے۔ ہمیں بھی یہ اعزاز حاصل تھا۔ سامنے کمانڈنٹ ائر کموڈور کمال مسعود، آفیسرز ، بیگمات اور ان کے پیچھے کیڈٹس بیٹھے تھے۔
حمایت علی شاعر ہی نظامت پر مامور ہوئے۔ ہمیں دعوتِ کلام دی گئی۔ ابھی تک ہم خود کو سنبھال نہیں سکے تھے:
اس کیفیت میں جو غزل یاد آگئی اس کے دو شعر:
دھیرے دھیرے زمیں کھسکتی ہے
کیسے قائم رکھیں چلن اپنا
کاروبارِ حیات میں خسروؔ
کام آیا نہ علم و فن اپنا
ہمیں اس پر خوب داد ملی۔ مقطع سن کر حمایت بھائی نے ہاتھ بڑھا کر ہماری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بلند آواز سے کہا “سچ کہتے ہو میاں”۔۔اس جملے کی گہرائی تک صرف تین لوگ پہنچ سکے ہوں گے۔ ائر کموڈور کمال مسعود، حمایت بھائی اور ہم۔
مشاعرے کے بعد انتہائی دلگرفتگی میں ہم نے گھر کی راہ لی۔۔۔۔ (جاری ہے)
Leave a Reply