rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں کہ جن کو دیکھ کر یہ سوچ ذہن میں ابھرتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کس ڈگر پر چل رہا ہے۔ ابھی کراچی سے ایک رعونت بھرے انسان کی ایک دوسرے کمزور انسان کو مارتے ہوئے ویڈیو کا اثر زائل نہیں ہوا تھا کہ اسلام آباد سے خاتون ٹک ٹاکر کو اس لئے قتل کرنے کی وجہ سامنے آئی کہ اس نے اُس شخص کی دوستی کا پروپوزل مسترد کر دیا تھا جس نے انکار کا جواب گولی سے دینے میں فخر محسوس کیا ، ایک ویڈیو آئی جس میں لاہور شہر میں پولیس کی وردی میں ملبوس ایک شخص نے وردی کی طاقت کی بدولت ایک عام آدمی پر تشدد کرنے کو اپنا حق سمجھ لیا ، بلوچستان سے آئی خبر نے یہ بتایا کہ کس طرح معمولی تکرار پر گولیاں چل گئیں کیونکہ دونوں طرف اسلحہ صرف دکھاوے کے لئے نہیں تھا ، خیبر پختونخوا میں چند بااثر افراد کا نوجوان پر تشدد اس لئے ہوا کہ نوجوان ان کا ہاتھ قانون کی مدد لے کر روک نہیں سکتا تھا۔ ایسا لگتا ہے پورے ملک میں کوئی ایسی فضاء قائم ہو چکی ہے کہ انصاف اور برداشت کا مادہ معاشرے سے کہیں دور نکل کر غاروں میں چھپنے چلا گیا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دم اپنا آپ کھو بیٹھنا ایک ڈپریشن زدہ معاشرے کی عملی تفسیر ہے۔ کیا یہ ہم نہیں ہیں جو جاپان سے آئی وہاں کے معاشرے کی وائرل ویڈیوز دیکھتے اور خوش ہوتے ہیں کہ جاپانیوں میں کتنی برداشت ہے، جس کی غلطی نہ بھی ہو وہ بھی اُس سے معافی کا طلبگار ہوتا ہے جس کی دراصل غلطی ہوتی ہے، اور جواباً جس کی غلطی ہوتی ہے اس کا انداز بھی اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ آپ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا کوئی اپنی غلطی پر اتنا بھی شرمندہ ہو سکتا ہے۔ کیا یہ وہی اسباق نہیں ہیں جو ہمیں اسلام کے اصولوں سے ملتے ہیں؟ جو بچپن سے ہمیں پڑھائے ضرور جاتے ہیں ؟ لیکن شاید صرف پڑھائے جاتے ہیں سکھائے نہیں جاتے، وگرنہ اگر تربیت میں کمی نہ ہوتی تو ہمیں چاروں اطراف میں چلتے پھرتے ذہنی بیمار نظر نہ آ رہے ہوتے۔
آئے دن مختلف وائرل ویڈیوز میں ہمارے تشدد زدہ معاشرے کی تصویر یوں نظر آنے لگی ہے، کہ دیکھ کر ایسے معاشرے پہ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں رہنے والے کیسے خود کو اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار تصور کر سکتے ہیں ۔ انصاف کے بارے میں مشہور قول ہے ، کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو صرف سنائی نہ دے بلکہ حقیقتاً ہوتا ہوا دکھائی بھی دے، اب اس قول کو پڑھنے کے بعد ارد گرد نظر دوڑانے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایسے معاشرے کے قیام کی طرف رواں دواں ہیں جہاں طاقت کا قانون اصل قانون سمجھ لیا گیا ہے جو اب ہر قانون پر حاوی ہے ۔ جہاں عدالت سے انصاف کی توقع عبث ہونے کے باعث ہر شخص اسی وقت اپنی عدالت لگا کر اپنے ہاتھوں انصاف کرنے کو ترجیح دئیے جانے کی روش پر عمل پیرا ہے اور بلا خوف و خطر اس کے دل میں یہ ڈر بھی نہیں ہے کہ پکڑے جانے پر سخت سزا کے حقدار ہو سکتا ہے، اس کو علم ہے کہ وہ ڈر کے ہتھیار سے مخالف کو ڈرا دھمکا کر معاملہ یوں رفع دفع کروا لے گا کہ عدالت منہ دیکھتی رہ جائے گی، اور پھر یہی مجرم پہلے ضمانت پر اور بعد ازاں باعزت بری ہو دوبارہ معاشرے کے معزز فرد کی حیثیت پر بحال ہو جائے گا ۔ ہمارے علم میں ہے کہ عدم برداشت معاشرے کو دیمک کی طرح آہستہ آہستہ چاٹ کر ختم کرنے کی طرف گامزن ایسا عمل ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو ایک جنگل آباد ہو جائے گا ، جو بظاہر نظر تو دیواروں سے آباد ایک شہر آئے کا لیکن دراصل جنگل ہو گا، جہاں صرف نفرت، طاقت اور ناانصافی کے درختوں کی بھرمار نظر آئے گی۔ کسی طاقتور کو سزا نہ ملنے سے معاشرے میں موجود کمزور طبقات میں ایک نفرت جنم لیتی ہے ایک ایسی نفرت جو معاشرے کے اصول ماننے سے انکار کر دیتی ہے ، وہ نفرت ہر کمزور دل میں عدم برداشت کا وہ پودا کاشت کر دیتی ہے جس کے نمو پانے پر ہر فرد انصاف کا ترازو اپنے ہاتھوں میں لے کر پھرتا ہے اور ہر معاملے میں اپنی عدالت اپنا انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ معاشرے کی اس گھٹن کو ختم کرنے کے لئے اپنے دلوں کی کھڑکیاں کھول کر انصاف، روزگار، ، خوشحالی اور عزت کی ہوا کو اندر آنے کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ جہاں قانون کا ڈر ہو، جہاں روزگار کی پریشانی نہ ہو، جہاں ہر طرف خوشحالی کی فصل لہلہا رہی ہو اور جہاں ہر فرد کی عزت یکساں ہو ، جہاں امیری غریبی نہیں قانون سب کو برابر کا شہری ہونے کے حق کی ضمانت دینے کا پابند ہو ، جہاں ماں کی گود کے بعد درسگاہیں صرف مثالی معاشرے کے بارے میں پڑھائیں نہیں بلکہ سکھائیں بھی کہ معاشرے میں ہر ہر فرد کا کردار کیا ہوتا ہے ، جہاں منبر سے روشن مثالی واقعات سنا کر نہیں بلکہ سمجھا کر اسلامی معاشرے کا تصور ہر ہر ذہن میں پختہ کیا جائے، جہاں ہر ذمہ دار جوابدہ ہو، جہاں ہر فرد سوال کرنے کا بلا خوف و خطر حق رکھتا ہو، جہاں اصول قانون کی کتابوں میں نہ ہوں بلکہ پورے معاشرے میں ان اصولوں پر زندگی گزارنے کی پابندی سب پر یکساں لاگو ہو۔ ہمیں قانون کی کتابوں میں درج وہ تمام دفعات جو انسانی حقوق سے متعلق ہیں درسگاہوں میں پڑھا کر ہر فرد تک جانکاری پہنچانے کا پابند ہونا پڑے گا ۔ حکومت وہ اقدامات کرے کہ ہر شہری قانون کی کتاب میں درج اپنے حقوق سے آگاہ ہو سکے ۔ اس سلسلے میں میڈیا کا بھی کردار ہے کہ ایسے پروگرامز شروع کئے جائیں جن میں قانون کی کتابوں میں درج قوانین پر خصوصی پروگرامز کر کے عام عوام تک واقفیت پہنچائی جائے، اخبارات و جرائد ان پر خصوصی مضامین شائع کریں تاکہ ہم ایک ایسے معاشرے کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکیں کہ جس میں ناانصافی اور عدم برداشت کا کوئی وجود نہ ہو اور دنیا جاپان کی نہیں بلکہ پاکستان کی مثالیں دیا کرے، شاید ابھی آپ یہ کہہ دیں کہ یہ تو صرف ایک خواب ہے ، لیکن کیا اس کی تعبیر ممکن نہیں ہے؟
Leave a Reply