ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com
علامہ اقبال کا “بچوں کا قومی گیت” بچوں کے ادب کے فروع کے لیے شاعر مشرق کا ایک ایسا تخلیقی کلام ہے جس میں انہوں نے غیر مقسم ہندوستان کی عظمت اور تہذیبی ورثے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم دراصل اقبال کے اُس دور کی عکاسی کرتی ہے جب ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتیں باہم ہم آہنگی کے ساتھ موجود تھیں اور قوم پرستی کا تصور ایک مشترکہ ورثے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس نظم میں اقبال نے اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان(موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے بچوں کے دلوں میں اپنے ملک کے لیے محبت اور احترام کے جذبات کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
چشتی نے جس ز میں میں پیغامِ حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
نظم کے اولین اشعار میں علامہ اقبال نے ملک کی روحانی اور تہذیبی عظمت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ برصغیر کی اس زمین کی بات کرتے ہیں جہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے پیغامِ حق سنایا اور سکھوں کے مذہبی پیشوا باباگرو نانک نے توحید کا درس دیا تھا۔ اس انداز سے اقبال نے اپنی نظم میں یہ وضاحت کی ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کی سرزمین صرف مذہبی رہنماؤں کی جاگير نہیں بلکہ یہ امن اور بھائی چارے کا بھی مرکز ہے۔ ان اشعار میں اقبال حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور گرو نانک کا ذکر کرتے ہیں تاکہ بچوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ان کے وطن نے ہمیشہ محبت، امن، اور اتحاد کا سبق دیا ہے۔ خواجہ چشتی اور گرو نانک جیسے بزرگ ہستیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستان کی سرزمین مختلف مذہبی اقدار کی آماجگاہ رہی ہے۔ تاتاریوں کے بارے میں اقبال کہتے ہیں:
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
اقبال نے اس نظم میں جہاں ہندوستان کی مٹی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، وہیں انہوں نے بچوں کے لیے ایسے مثبت کردار اور جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کی شخصیت اور اخلاقیات کو بہتر بنا سکیں۔ یہ نظم علامہ اقبال کے ابتدائی کلام “بانگ درا” میں موجود ہے ہے، جس میں انہوں نے محبت اور وحدت کی تعلیم کو اجاگر کیا ہے۔ اس شعر میں اقبال ہندوستان کی زمین کی سخاوت اور وسعت کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاتاریوں نے ہندوستان کو اپنا مسکن بنا لیا اور یہاں کی مٹی کو اپنے خون سے سینچا اور وطن کےلیے قربانیاں دیں۔ اس زمین کی وسعت اور ثقافتی رنگینی نے انہیں یہاں قیام پر مجبور کیا۔یونانیوں کے بارے اقبال کا کہنا ہے کہ :
یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا
اقبال کا یہ شعر ہندوستان کے علمی اور ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔ شاعر نے یہاں علم و حکمت کی عظیم وراثت کو بیان کیا ہے جس نے دنیا بھر کے مفکرین اور فلسفیوں کو متاثر کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کا علم و ہنر، دنیا کی تہذیبی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اقبال ترکوں کا زکر اس انداز سے کرتے ہیں:
مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
شاعر اس شعر میں ہندوستان کی زرخیزی اور دولت کا ذکر کرتا ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ اس مٹی کی زرخیزی نے مغل حکمرانوں کو یہاں کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ اقبال کہتے ہیں:
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
اقبال نے اپنی اس نظم میں یہ بنیادی پیغام دیا ہے کہ بچوں کو اپنے وطن کی محبت سے روشناس کرایا جائے۔ انہوں نے ہندوستان کو نہ صرف ایک زمین بلکہ ایک روحانی مقام بھی قرار دیا، جہاں تمام مذاہب اور ثقافتوں نے اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ اس نظم میں بچوں کو اپنے وطن سے محبت کرنے، اس کی تاریخ اور عظمت کو سمجھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ترکوں کی تعریف کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:
مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
اقبال نے اس نظم کے ذریعے ایک ایسے ملک کا تصور پیش کیا ہے جہاں سب قومیں، مذاہب، اور ثقافتیں آپس میں ہم آہنگی سے رہتی ہیں۔اقبال برگزیدہ پیغمبروں کا بھی زکر کرتے ہیں:
بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سینا
نوحِ نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا
اقبال نے اپنے وطن کو جنت سے تشبیہ دی ہے مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
رفعت ہے جس ز میں کی بامِ فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply