rki.news
تحریر: سید مجتبیٰ رضوان۔
عوام کی جان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، یہ جملہ ہم بطور معاشرہ اس قدر سن چکے ہیں کہ اب اس کی تلخی نے اپنی شدت کھو دی ہے، لیکن حقیقت کی چبھتی ہوئی کرچیاں آج بھی ہمارے دل و دماغ میں پیوست رہتی ہیں۔ سڑکوں پر پڑے کھلے مین ہولز میں گر کر مر جانے والوں کی چیخیں، ٹوٹی ہوئی گلیوں میں دم توڑتے معزوروں کی بے بسی، سرکاری ہسپتالوں کے دروازوں پر زندگی کی آخری سانسیں لیتے مریضوں کے کراہتے ہوئے وجود، اور حادثات کے بعد قانون کی بے حسی کا وہی روایتی تماشا، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس ملک میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ یہاں ہر روز لوگ مرتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں، برباد ہوتے ہیں، لیکن نظام کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک ایسا ملک جہاں اربوں روپے کے منصوبے کاغذوں پر سجتے ہیں، جہاں ہر سال ترقیاتی بجٹ کے بڑے بڑے اعلانات ہوتے ہیں، وہاں سب سے کم خرچ مگر سب سے زیادہ ضروری کام یعنی عوام کی بنیادی سلامتی کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ گٹر کے کھلے ڈھکنوں سے لے کر بجلی کے کھمبوںپر لٹکتی ننگی تاروں تک، ٹریفک کے بکھرے اور بوسیدہ سگنلز سے لے کر تجاوزات میں ڈوبی سڑکوں تک، ہر منظر بتاتا ہے کہ جیسے ان سب کا کوئی مالک ہی نہیں، کوئی ذمہ دار ہی نہیں، جیسے یہ ملک آنکھوں پر پٹی باندھ کر چل رہا ہو۔ درد کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی غفلت ہے جس نے پوری قوم کو روزانہ ایک نئے امتحان میں ڈال رکھا ہے۔
چند لمحوں کے لیے سوچئے، ایک ماں اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر سکول جا رہی ہو، راستے میں ایک کھلے گٹر کا ڈھکن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچہ ایک لمحے میں اس اندھیر کنویں میں گر جائے۔ وہ ماں کیا محسوس کرتی ہوگی؟ اس کا دل کیسے ٹوٹ جاتا ہوگا؟ کیا وہ زندگی بھر اس صدمے سے نکل سکتی ہے؟ لیکن افسوس اس ملک کی فائلوں میں یہ واقعہ صرف ایک “حادثہ” کہلا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا، کوئی معافی نہیں مانگتا، کوئی استعفیٰ نہیں دیتا۔ غفلت کے اس کھیل کا اصل المیہ یہی ہے کہ کسی کے پاس جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
ای چالان، جدید کیمرے، شاہراہوں پر اربوں کے منصوبے— یہ سب اُس ملک میں ہو رہا ہے جہاں عوام سڑکوں کے گڑھوں میں مرتے ہیں۔ کہیں ٹریفک کیمرے تو لگ جاتے ہیں تاکہ جرمانے بڑھیں، لیکن زندگی کو محفوظ بنانے والے کاموں کے لیے ہمیشہ پیسے کم پڑ جاتے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے حفاظتی دیواریں نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں مسافر اپنی جان ہار دیتے ہیں۔ زہریلی نالیاں، گندے پانی کے جوہڑ، بیماریاں پھیلانے والے ماحول، یہ سب ایک ایسے ملک کی تصویر کھینچتے ہیں جو ترقی تو کرنا چاہتا ہے مگر بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ہسپتالوں کی حالت بھی عوام کی جان کی وقعت کا حال بیان کرتی ہے۔ ایک بستر پر دو دو مریض، ایک ڈاکٹر کے سامنے درجنوں لوگ، پرانی مشینیں، ناکارہ ایمبولینسیں، اور علاج کے لیے ترستے ہوئے لوگ۔ کیا انسان کی جان کی وقعت چند فائلوں، چند پیسوں یا چند بدعنوان ملازمین کی وجہ سے اتنی کم ہو سکتی ہے؟ بدقسمتی سے یہاں ایسا ہی ہے۔ یہاں زندگی اس وقت زیادہ اہم ہوتی ہے جب وہ کسی بڑے آدمی کی ہو، کسی حکومتی شخصیت کی ہو، کسی بااثر شخص کی ہو۔ عام آدمی کی زندگی کی کوئی بازاری قیمت نہیں، کوئی سیاسی قدر نہیں، کوئی حکومتی ترجیح نہیں۔
ہماری گلیوں اور شہروں میں سب سے بڑا مسئلہ یہی نہیں کہ حالات خراب ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس خرابی کو ٹھیک کرنے کا ارادہ کمزور ہے۔ عوام کی جان کے تحفظ کے لیے قانون موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ایک افسر اپنے دفتر میں بیٹھ کر فائل پر یہ لکھ دے کہ “ڈھکن لگانا ضروری ہے”، تو یہ فیصلہ کئی جانیں بچا سکتا ہے، مگر وہ فائل ہفتوں اور مہینوں میں گم ہو جاتی ہے۔ یہاں کام کرنے کے لیے بجٹ کم نہیں، نیت کمزور ہے، ترجیحات بے ترتیب ہیں اور انسانیت نظرانداز ہے۔
عوام کا مزید درد یہ ہے کہ جب وہ آواز اٹھاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، تو انہیں سیاسی بنا دیا جاتا ہے، انہیں غیر سنجیدہ کہا جاتا ہے۔ لیکن وہ تو اپنی زندگی کی حفاظت کی بات کرتے ہیں۔ وہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ اس ملک میں کم از کم اتنی بہتری ضرور آئے کہ ان کے بچے سکول سے واپس آ جائیں، کوئی موٹر سائیکل سوار سڑک پر موجود گڑھے میں گر کر نہ مرے، کوئی بوڑھا شخص بجلی کی تار سے کرنٹ نہ لگنے پر مجبور ہو کر دنیا سے رخصت نہ ہو جائے، کوئی عورت راستے میں کسی اندھے کنویں میں نہ گریں۔ لیکن ان کی فریادیں صرف ہواؤں میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔
حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، چہرے نئے آتے جاتے ہیں، دعوے بدلتے ہیں، منشور بدلتے ہیں، لیکن عوام کی زندگی کو محفوظ بنانے کے اقدامات کبھی تبدیل نہیں ہوتے، کیونکہ وہ ہوتے ہی نہیں۔ ہم ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کی بڑی بڑی باتیں سنتے ہیں لیکن چھوٹے اور سادہ کام— جیسے گٹر کے ڈھکن لگانا، سڑک سیدھی کرنا، ٹوٹی ہوئی دیوار مرمت کرنا، خطرناک بجلی کے کھمبے درست کرنا— ان پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی چھوٹی چیزیں بڑی زندگیوں کو تحفظ دیتی ہیں، مگر جب یہ ترجیحات سے نکال دی جاتی ہیں تو قوم حادثات کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جاتی ہے۔
یہ تحریر کسی حکومت یا ادارے کے خلاف نہیں، بلکہ ایک اجتماعی آئینہ ہے۔ اس قوم کو، اس نظام کو، اس رویے کو، اس بے حسی کو، جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے جہاں ہم کھلے مین ہول میں گرتی جان کو بھی محض اتفاق سمجھ کر گزر جاتے ہیں۔ ہمیں بدلنا ہوگا، سوچ بدلنی ہوگی، نظام بدلنے تک کم از کم اپنی ترجیحات کو انسانیت کی طرف موڑنا ہوگا۔ جب تک ہم عوام کی جان کو مقدم نہیں سمجھیں گے، کوئی تبدیلی حقیقی تبدیلی نہیں کہلائے گی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک محفوظ معاشرہ صرف بڑی عمارتوں اور لمبی سڑکوں سے نہیں بنتا، بلکہ اس سے بنتا ہے کہ وہاں رہنے والے لوگ کب، کہاں اور کیسے اپنی زندگی محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اگر آج ہم نے یہ بنیادی ذمہ داری قبول نہ کی تو آنے والے وقت میں یہ غفلت ہمیں مزید گہری کھائیوں کی طرف دھکیل دے گی۔ عوام کی جان کا خیال رکھنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے غفلت صرف ایک جرم نہیں بلکہ ایک اجتماعی گناہ ہے جس کا خمیازہ پوری قوم نسل در نسل بھگتتی ہے۔
Leave a Reply