Today ePaper
Rahbar e Kisan International

جب کوئٹہ لرز اٹھا، 31 مئی 1935

Articles , Snippets , / Friday, May 30th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کا آپ سے براہِ راست تعلق نہ بھی رہا ہو لیکن وہ آپ کو اپنی سنگینی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ آپ اگر واقعہ کی اُتنی شدت محسوس نہ بھی کر پائیں تب بھی اس واقعہ کو پڑھتے یا سنتے ہوئے اپ کو یہ احساس رہتا ہے جیسے یہ واقعہ اتنی ہی شدت کیساتھ آپ کیساتھ بھی گزرا ہے۔ ایک ایسا واقعہ ہر سال ماہ مئی میں کوئٹہ میں آباد ہر شخص کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے جبکہ شائد ہی اس واقعہ کا کوئی چشم دید اب موجود ہو، لیکن اس واقعہ کو اتنا شائد ضبط تحریر میں نہ لایا گیا ہو جتنا سینہ بہ سینہ بزرگوں سے جوانوں اور پھر نئی سے نئی نسل میں یہ منتقل ہوتا رہا ہے۔ یہ 31 مئی 1935 کی رات تھی کوئٹہ کے لوگ دن بھر کی شدید گرمی جھیل کر آرام کی نیند سو رہے تھے۔ سارا دن لوگوں کو 30 مئی 1935 کا دن باقی ایام سے زیادہ گرم محسوس ہو رہا تھا۔ رات بھی دھیرے دھیرے ڈھل رہی تھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ رات کوئٹہ کی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ کر ہمیشہ یاد رہ جانے والی رات ہے۔ 3 بجکر 3 منٹ کو جیسے ہی سوئیوں نے چوما، ایک زوردار آواز نے پورے شہر کی نیند غارت کر دی۔ ایک خوفناک ریکٹر اسکیل پر 7.7 کی شدت کے زلزلے نے ایسا لگتا تھا کوئٹہ کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ زلزلے کی شدت اتنی شدید تھی کہ زمین پھٹ چکی تھی اور زیادہ تر عمارتیں زمیں بوس ہو گئی تھیں اور اس ملبے کے نیچے ہزاروں تڑپتے، چیختے معصوم شہریوں کی آوازیں اس سناٹے کو چیرتی ہوئی پورے شہر میں گونج رہی تھیں۔ زلزلے کا مرکز بلیلی کے قریب تکاتو کا پہاڑ تھا، شہر کے وسط سے گزرنے والے نالے کے ایک طرف چھاونی اور ایک طرف شہر تھا۔ شہر کو یہ زلزلہ مکمل طور پر چاٹ چکا تھا لیکن اس کا زور چھاونی کے علاقے پر زیادہ نہیں چلا تھا اور اس طرف اس کی شدت کافی کم محسوس کی گئی۔ زلزلے کے بعد مواصلاتی نظام درہم برہم ہوتے ہی تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ اس وقت کے اسٹاف کالج کے انسٹرکٹر جنرل کیچر ان جھٹکوں کو محسوس کر کے باہر آئے تو دیکھا ہر طرف آہ و فغاں کا شور ہے انہوں نے فوری طور پر فوج کے اعلیٰ افسران کو اطلاع پہنچائی اور اسی وقت برطانوی ہندوستانی فوج اور انتظامیہ حرکت میں آگئی۔ میجر جنرل سی ایم فین اس وقت کوئٹہ میں تعینات تھے ، انہوں نے ذاتی طور پر اس آپریشن کی قیادت کی اور کہا جاتا ہے کہ 3 بجکر 3 منٹ پر زلزلہ آنے کے بعد 5 بجکر 20 منٹ تک فوج نے شہر کا مکمل کنٹرول سنبھال کر ریسکیو آپریشن شروع کر دیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ لگی آگ بجھانی شروع کر دی تھی، فوری طور پر فیلڈ اسپتال قائم کئے گئے تاکہ زخمیوں کو فوری طبی امداد دی جا سکے۔ اسی طرح فوری طور پر ریلوے ٹریک بحال کیا گیا تاکہ دیگر شہروں سے آنے والی امداد میں رکاوٹ نہ ہو۔ صبح کے اجالے میں شہر ایک الگ ہی منظر پیش کر رہا تھا، شہر کی مشہور عمارتیں جن میں وکٹوریہ ہال، میونسپل کمیٹی کی عمارت، اسکولز، اسپتال مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ ریلوے اسٹیشن اور چھاونی کی عمارت اس زلزلے سے محفوظ رہ پائی تھیں۔ ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے کا ایک طویل اور جان جوکھم والا آپریشن شروع کیا گیا ۔ زندہ بچ جانے والے افراد کے لئے خوراک، دوا اور رہائش کی شدید ضرورت تھی جس کے لئے انگریز سرکار نے ملک بھر سے امدادی ٹیمز اور امداد روانہ کی۔ لیکن ہر طرف لاشوں کا ڈھیر زلزلے کی شدت بتانے کے لئے کافی تھا، ایک اندازے کے مطابق اس زلزلے میں ستر ہزار سے زائد لوگ لمحوں میں اجل کے خونی پنجے کی پکڑ میں آئے اور زندہ بچ جانے والے افراد کی تعداد صرف دس ہزار رہ گئی تھی ۔ زلزلے کے بعد شہر ایک میدان کی صورت نظر آتا تھا جس کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت نے فوری طور پر کوئٹہ کو ازسر نو آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت آباد کرنے کے لئے کچھ ضوابط بھی طے کئے جن میں عمارتوں کی اونچائی کی ایک حد مقرر کی تاکہ مستقبل میں آنے والے کسی زلزلے میں دوبارہ اتنے بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔ 1935 کے زلزلے میں اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے جس طرح کوئٹہ کی عوام نے ایک دوسرے کا انسانی ہمدردی اور جذبہ خدمت میں ساتھ دیا وہ کوئٹہ کی اقوام میں آپس کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آج بھی ہر سال 31 مئی کے دن اس سانحے کی یاد تو منائی جاتی ہے اور ان ہزاروں بے گناہ افراد کو یاد بھی کیا جاتا ہے جو ایک لمحے میں اجل کا شکار ہو گئے لیکن وقت کیساتھ ساتھ احساس کی شدت کم ہوتی جا رہی ہے ۔ انگریز سرکار کے بنائے عمارتی حد کے قانون کو آہستہ آہستہ پامال کیا جا رہا ہے اور شہر میں بلند و بالا عمارات اپنا جلوہ دکھانے لگی ہیں یہ الگ بات کہ متعدد بار معمولی نوعیت کے زلزلے وارننگ دیتے رہتے ہیں کہ اپنی حفاظت کی طرف توجہ مرکوز رکھو اور ہر زلزلہ پر کوئٹہ کی عوام جیسے ان عمارات سے نکل کر دور بھاگتی ہے وہ احساس تادیر قائم نہیں رہ پاتا اور کچھ دن بعد پھر معمول کی زندگی میں زلزلے کی شدت بھلا دی جاتی ہے، لیکن یہ بات ضروری ہے کہ ماہر ارضیات پروفیسر دین محمد کا بیان وکیپیڈیا پر احساس دلانے کو موجود ہے کہ 90 سال کے بعد کوئٹہ فالٹ لائن پر دوبارہ 1935جیسے زلزلے کے خدشات موجود ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ایسے کسی بھی قدرتی آفت سے بچنے کا مکمل انتظام اور مناسب اقدامات کئے جائیں اور عمارات میں استعمال میٹریل کی مکمل جانچ کی جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی سنگین واقعہ سے بچا جا سکے۔ 31 مئی ہر سال ہماری یادداشت تازہ کرنے آتی ہے تاکہ ہم ان ہزاروں لوگوں کو یاد رکھیں جو صرف 45 سیکنڈ میں ہم سے جدا ہو گئے تھے۔ زندہ قومیں ہمیشہ ایسے حادثات سے سبق سیکھتی ہیں کہ مستقبل محفوظ ہو جس کی مثال جاپان کی صورت ہمارے سامنے ہے کہ 2011 کے سونامی کے بعد انہوں نے نا صرف از سر نو تعمیر کی بلکہ اس بات کو یقینی بنایا کہ اب تمام عمارتیں حفاظتی اقدامات اور حکومتی حدود و قیود کے مطابق تعمیر کی جائیں گی، جس کی وجہ سے مستقبل میں وہاں زلزلے یا سونامی آنے کی صورت میں بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو گیا ہے۔ امید ہے کوئٹہ کی خوبصورتی کیساتھ ساتھ اس کی حفاظت پر بھی توجہ دی جائے گی تاکہ یہ امن کا گہوارہ سدا آپس کی محبتوں کا امین بن کر جگمگاتا رہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International