پیش نظر شعری مجموعہ ایک ایسے دل کی آواز ہے جو زخموں کے لہلہاتے کھیتوں سے گزر کر زندگی سے نباہ کر رہا ہے۔ ہر انسان کی طرح شاعر بھی گزرتے لمحات میں اپنے تجربات اور مشاہدات اور جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا ہے یہی شاعر کا اولین فریضہ ہے۔
مسرور صاحب نے یہ فریضہ پوری طرح ادا کیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے کے مطالعے سے ان کی زندگی کے نہاں خانوں سے ان کی شخصیت نمودار ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک دل جو درد مند ہے۔ ایک انسان جو سرورِ دو عالم کی مداحی میں سر جھکائے کھڑا ہے اور ایک بیٹا جو ماں کی محبت سے سرشار ہے۔ ان کی نعت کا خوبصورت شعر ہے:
میں جذبِ عشقِ احمدؐ ساتھ لے کر گھر سے نکلا ہوں
بہت کام آئے گا راہوں میں ساماں جو میں رکھتا ہوں
ان کے مجموعے میں نماز کو سب سے بڑا تحفہ کہا ہے اور اذان کے الفاظ الصلوٰۃ خیر من النوم کو بڑی خوبصورتی سے ڈھال کر شعر میں پیش کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف بڑی لیاقت سے کائنات کے وسیع اور بسیط فضاؤں میں لامحدود امکانات کے باوجود انسان کی مجبوری کو اس شعر میں سامنے رکھا ہے۔
دے کے میرے ہاتھ میں کاغذ کی اک چھوٹی سی ناؤ
تو نے میرے سامنے گہرے سمندر رکھ دئیے
ایک اچھا انسان اپنے غموں کو اپنے سینے میں چھپائے رکھتا ہے اور دوسروں کو خوشیاں بانٹتا رہتا ہے۔ یہ صفت بھی ان کے اس شعر میں جھلکتی ہے۔
میں نے خوشیوں کے اجالے راستوں پر رکھ دئیے
اور غم کے سائے اپنے گھر کے اندر رکھ دئیے
شاعر کی نظر حسن کو پرکھ رہی ہے اور ایک خوبصورت منظر کشی اس شعر میں عیاں ہوتی ہے۔
سمندر کی تلاطم خیز موجیں جب ہوئیں واپس
تو اک خوش رنگ سیپی ریت کے بستر پہ رکھی تھی
شاعر کا جدت تخیل ملاحظہ ہو:
پرندہ ریت کو پانی سمجھ کر
لگی جو پیاس، کنکر پی رہا ہے
یہ فنکار زمانے کے ظلم و ستم خود سہہ چکا ہے اور اپنے ہم سفروں کو آگاہ کرتا ہے۔
سنگ زن راہ میں ہر سمت ملیں گے تم کو
لے کے شیشے کا بدن شہر میں نکلا نہ کرو
اور ذاتِ الٰہی کی صفات کس خوبصورتی سے ان اشعار میں روشن کرتے ہیں اور خالق اور مخلوق کے بیچ کے سارے راستے کھولتے ہیں۔
نورِ خدا ہر سمت ضو فشاں ہے جلوہ بے شمار ہے اور قیدِ شمار سے باہر۔
ہے خدا کا نور جب دل میں ترے جلوہ فگن
قید کرکے یہ اثاثہ خانقاہوں میں نہ رکھ
شاعر نے اپنی شعری زندگی کے سفر میں جس جدوجہد سے گزر کر اپنی منزل کی طرف بڑھنا چاہا، ہر طرف انسانیت کے بے شمار نمونے اور بے شمار مناظر ان کی نظر سے گزرے۔ شاعر کی نظر دور رس بھی اور ذہن رسا ہے۔
آدم کی اولین سرگزشت سے لے کر اس کے زوال کی طرف انسانیت کے بہکتے ہوئے قدم اور بھٹکتی ہوئی نظریں انہوں نے اپنے اشعار کے سانچے میں ڈھال لیں۔ شاعر حیرت سے کہتا ہے:
سجدہ ازل میں جس کا فرشتوں نے تھا کیا
حیرت میں ہوں کہ کیا وہی انسان میں ہی تھا
آج کی دنیا مسلسل جنگ، قتل و غارت گری اور نسل کشی پر آمادہ ہے۔ یہاں تک کہ معصوم نونہال اس دہشت گردی کے شکار ہو رہے ہیں۔ تمام ذرائع ابلاغ ان خونی خبروں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ سانحہ بھی شاعر کی نظر تفکر کے دائرے سے نہیں بچا۔
معصوم، حسیں، خوش نما، گلفام سے بچے
فٹ پاتھ پہ مر جاتے ہیں معلوم نہیں کیوں
تخیل کی پرواز شاعر کی شخصیت کا سب سے بڑا جزو ہے۔ انسان کتنے ہی خوبصورت خواب دیکھتا ہے اور ان کی تعبیر کی کھوج میں زندگی کی دشوار راہوں پر گامزن ہوتا ہے تصورات میں پرچھائیاں ابھرتی ہیں۔ شعر کے لیے اور اکثر ایک حسین دنیا اور حسین روپ اس کے خیالوں پر چھا جاتا ہے۔ مسرور صاحب کا یہ شعر اس بارے میں بہت خوبصورت ہے۔
دھیان میں اکثر تراشے ہیں صنم
ہم بھی اپنے وقت کے آزر ہوئے
مسرور صاحب کے ہاں خالص تغزل بھی ملتا ہے اور جو آخری کلاسیکی دور کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
کہاں سیکھیں رموزِ عاشقیئ حسن اے مسرورؔ
کہیں عشق و وفا و حسن کا استاد ہوتا ہے
کیونکہ اردو شاعری اور خصوصاً غزل قدیم روایت سے پیوست ہے اور شاعر دورِجدید کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے اور اس کے احساسات کا ایک سرا روایت سے جڑا رہتا ہے۔ مسرور صاحب کا یہ شعر جگر کی یاد تازہ کرتا ہے۔
مسرورؔ آج صحنِ گلستاں نہ جائیو
شعلے برس رہے ہیں، کوئی بے نقاب ہے
دوسری طرف آج کی دنیا کی مالی دشواریاں، اقتصادی بدحالی اور ایک سرپرست اپنے خاندان کا ایک باپ جو اپنی کم مائیگی لیے دور سے دنیا کا میلہ دیکھ رہا ہے وہ انہوں نے اس شعر میں کہا:
میں بچوں کے لیے کیا لے کے جاؤں
کھلونے میلے میں سستے نہیں ہیں
مسرور صاحب کا رنگِ تغزل بہت منجھا ہوا ہے اور آپ کا شمار کلاسیکی شعراء میں یقینا ہوتا ہے جنہوں نے بدلتی ہوئی اردو غزل کا منظر نامہ بھی آگے رکھا ہے۔ میری نظر میں یہ اردو کے قارئین اور شائقین کے لیے عہدِ جدید میں یہ اردو شاعری کا اچھا مجموعہ ہے۔ بہرحال فیصلہ پڑھنے والے کے ہاتھ ہوتا ہے شاعر کے الفاظ میں
آپ کی بات نہیں آپ فرشتے ٹھہرے
جتنے الزام تھے وہ میرے ہی سر آئے
پروفیسر ڈاکٹر انور رضوی
سابقہ چیئرپرسن شعبہِ فارسی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
Leave a Reply