rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
کربلاکی جنگ جوتقریباساڑھےتیرہ صدیاں قبل لڑی گئی تھی،وہ دو گروہوں کی جنگ نہیں تھی بلکہ دو نظریات کی جنگ تھی۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق کی نمائندے تھےاور یزید باطل کانمائندہ تھا۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔وہ جان گئے تھے کہ جنگ کی صورت میں وہ اور ان کے ساتھی یقینی طور پر شہید ہو جائیں گے مگرپاؤں میں لغزش نہیں آنے دی۔یہ نظریاتی جنگ صرف کربلا میں نہیں لڑی گئی بلکہ اول انسان کی پیدائش ہی سے لڑی جا رہی ہے۔آدم علیہ السلام کوشیطان کی صورت میں ایک باطل(نظام)ملا۔قرآن گواہ ہے کہ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کوگمراہ کرنےکا تہیہ شیطان نےکرلیاتھا۔آدم علیہ السلام کو جب سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو ابلیس کے علاوہ سب فرشتوں نے سجدہ کر لیا۔ابلیس ایک ایسےنظام کا سربراہ بناجو باطل تھا۔فرشتے اللہ پاک کا حکم مان کرآدم علیہ السلام کو سجدہ کر رہے ہیں۔یوں اللہ تعالی کا حکم مان کر ایک حق نظام(اللہ کےنظام)کو قبول کر رہے ہیں۔یہ دو نظام یا دو نظریات کہے جا سکتے ہیں ایک رحمانی نظریہ اور ایک شیطانی نظریہ۔آدم علیہ السلام کے بعدبھی حق اور باطل کا ٹکراؤ جاری رہا اور قیامت تک جاری رہے گا۔ابراہیم علیہ السلام کو نمرود ملا،موسی علیہ السلام کو فرعون ملا،اسی طرح حق کے داعی اور باطل کے داعی آپس میں ٹکراتے رہے۔کربلا میں بھی دو نظریات ٹکرائے،یوں کہا جا سکتا ہےکہ یہ جنگ نظریےکی خاطرلڑی گئی تھی۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے مد مقابل ایک ایسا نظام تھا جوانسانیت کا دشمن تھا۔یزید ایک ایسے نظام کو قائم کرنا چاہتا تھاجو اللہ کا ناپسندیدہ ہو۔یزید اور اس کالشکرظاہری طور پرمسلمان تھے(دلوں کاحال اللہ تعالی اچھی طرح جانتاہے)مگرباطل نظام کی نمائندگی کر رہے تھے۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق کا پرچم تھام کرکربلا کے میدان میں اترے۔ان کو اچھی طرح علم تھاکہ شہادت یقینی ہے،مگر نظام یانظریہ کی خاطرنہ جان کی پرواہ کی،نہ اولاد کی اور نہ مال کی،سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔حیرت ہوتی ہےکہ دودھ پیتا بچہ سمیت نوجوان بیٹےتک شہید کروا ڈالے،مگر اف تک نہ کی اور نہ شکوہ کیا بلکہ اللہ کی رضا میں راضی رہے۔ہمیشہ اچھائی کا راستہ مشکل ہوتا ہےاوراس راستے میں ہزاروں تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تھوڑی سی تکلیف بھی کسی بھی انسان کوسیدھے راستے سےاتار سکتی ہے مگرنواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ڈٹے رہے اور سب کچھ قربان کر دیا۔
امام حسین رضی اللہ تعالی چاہتے تو بچ بھی سکتے تھے_صرف ایک لفظ”ہاں”کہہ کربچ سکتے تھے،مگر وہ جانتے تھے کہ اس راستے میں قربانی دینا ناگزیر ہے۔ان کی قربانی اب رہتی دنیا کی انسانیت کے لیےایک عظیم مثال بن گئی ہے۔قرآن جس نظام کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے شہید ہو کراس نظام کا پرچم بلند کر دیا۔وہ یہ بھی کرسکتے تھےکہ بیعت کر کےبعد میں توڑ دی جائے،مگر ایسا سوچنا اور عمل کرنا عام آدمی کے لیے توآسان ہے،لیکن امام حسین جیسے جلیل القدر شخص کے لیےناممکن تھا۔وہ ایک ایسی ہستی تھے جنہوں نے دنیا کے لیے مثال ہی بننا تھا۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ خود غداروں کی غداری کا شکار ہو چکے تھے،اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ایک بات پرقائم نہ رہنابہت بری حرکت ہے۔انہوں نےجان دے کر ثابت کر دیا کہ اگر کسی بات کا عہد کر لیا جائے تو اس کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا لازمی ہوتا ہے چاہےکتنی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ہزاروں کوفیوں نےان کو دعوت دی تھی اور خط لکھے تھے،مگربے وفائی کر گئےاور چندٹکوں کی خاطراپنا ایمان اور ضمیر بیچ دیا۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی یہ جوازبن سکتا تھا کہ بے وفاؤں اور غداروں کے ساتھ دھوکہ دینا جائز ہے،مگر یہ حسینی منصب کے خلاف تھا۔ان کی صرف ایک دفعہ بیعت،جھوٹی ہی سہی،مگر ان کے وقار کے خلاف تھی۔عوام الناس کو جواز مل جاتا کہ دھوکہ دینا جائز ہےاور باطل کا ساتھ بھی دینا درست ہے۔ایک نظام کھڑا ہو جاتا،جو اس بات کا تقاضا کرتا کہ دھوکہ دینا کوئی مسئلہ نہیں۔یزیدی لشکر کو بھی علم تھا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق پر ہیں اور یہ بھی علم تھا کہ وہ سچے ہیں،مگر لالچ یا خوف کی وجہ سےحق کا ساتھ نہ دے سکے۔حرجو یزیدی لشکر میں ایک اہم منصب پر فائزتھا،آخری وقت حسینی لشکر میں شامل ہو گیا۔حر بھی سمجھتا تھا کہ شہادت یقینی ہے،مگر حق کا ساتھ دیا اورحربھی شہید ہو گیا لیکن تاریخ میں امر ہو گیا۔حسینی لشکرجو چند افراد پر مشتمل تھا،اس کے مدمقابل ایک لشکر جرار، یزیدی لشکر کی صورت میں موجود تھا،حسینی لشکر یزیدی لشکر سے ٹکراگیا۔حسینی لشکر کےمجاہد،یزیدی لشکر کےسپاہیوں سے لڑتے رہےاور شہید ہوتے رہے۔
سوال پیدا ہوتا ہےکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ یزید کی بیعت سے کیوں انکاری تھے؟دراصل امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یزیدایک برے اور باطل نظام کی نمائندگی کر رہا ہے۔عوام الناس کو حق پہنچتا ہے کہ خلیفہ اپنی مرضی سے چنے،مگر یزید کی تقرری کسی چناؤ کے بغیرہوئی تھی۔اگر یزیدبغیر انتخاب کے بھی منتخب ہو گیاہوتااوراپنےآپ کو بہتر حکمران ثابت کرتا توشاید امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ باخوشی اس کی بیعت کر لیتے۔مگر یزید کا کرداراچھا نہ ہونے کی وجہ سےامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔منتخب ہونے کے بعدیزیدکے کردارمیں برائیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں اوراپنےآپ کوباطل کا نمائندہ ثابت کرنا شروع کر دیا۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ایک عظیم نظریےکہ پیروکار ہونے کی وجہ سےسمجھتے تھے کہ جان دے کرنظریے کو بچایا جا سکتا ہے۔کربلا میں ٹکراؤ اس لحاظ سے بھی عجیب لگتا ہے کہ دونوں طرف لڑنے والےایک ہی دین سے تعلق رکھتے تھےلیکن یزید نےصرف دین اسلام کالبادہ اوڑھا ہوا تھا اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ایک حقیقی مومن تھے۔حق و باطل کی اس لڑائی میں ظاہری طور پر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے،مگرحقیقی طور پرابدی زندگی حاصل کر لی۔کربلامیں لڑی جانے والی جنگ نےپوری انسانی تاریخ کومتاثر کر دیا۔دنیا میں جہاں بھی ظلم ہوتا ہے،تو انسانیت بے اختیارحسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اس کے لشکر نےدنیا کو بتا دیا کہ ہر جیتنے والا کامیاب نہیں ہوتا بلکہ شہید ہونے والے بھی کامیاب ٹھہرتےہیں۔بعض لوگ اعتراضات کرتے ہیں کہ یہ جنگ،سیاسی جنگ تھی لیکن یہ ان کی لاعلمی یا تعصب ہے۔معمولی سی بھی جانکاری یا تعصب نہ رکھنے والا جان سکتا ہے کہ یہ جنگ نہ تو سیاسی تھی اور نہ کسی منصب یا لالچ کے تحت لڑی جا رہی تھی،بلکہ حق کی خاطریہ جنگ لڑی گئی۔دنیا بھر میں اٹھنے والی تحریکیں،سیاسی ہوں یا اپنے حقوق کے لیےلڑ رہی ہوں،سب کے لیے کربلا کی جنگ ایک مثال بنی ہوئی ہے۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید تو ہو گئے،مگر دنیا کو بتا گئے کہ حق کی خاطرجان دینا پڑتی ہے۔صرف اپنی جان نہیں دینا پڑتی بلکہ اہل خانہ کو بھی قربان کرنے کے ساتھ مال کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے۔کربلا سے یہ بھی درس ملتا ہےکہ دشمن کتنا بڑایاطاقت ورکیوں نہ ہواور تمہارے پاس نہ ہتھیار ہوں اور نہ لشکر،لیکن حق پر ہونے کی صورت میں اس سے ٹکرا جانا چاہیے۔اس وقت بھی ٹکرا جانا چاہیے جب یقینی موت سامنے نظرآرہی ہو۔
Leave a Reply