تازہ ترین / Latest
  Sunday, December 22nd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, November 21st, 2024

 

ہندوستان کے صوبہ اترپردیشن کے ضلع ہمیر پور کے ایک دلکش قصبے جہاں زندگی کی لہر پرسکون انداز میں وقت کے دھارے کے ساتھ بہتی ہے۔ وہاں ایک ایسی شخصیت جنم لیتی ہے جس نے تعلیم اور اردو ادب کے میدان میں ناقابل فراموش نقوش چھوڑے۔ یہاں ذکر ہو رہا ہے ماسٹر مسرورؔ احمدصاحب کا جن کی ولادت یکم جون ۶۴۹۱ء کو قصبہ مودھا کے محلہ چودھرانے میں ایک متوسط گھرانے میں انجام پائی۔ ماسٹر مسرورؔ صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم مودھا کے پرائمری سکول اور رحمانیہ انٹر کالج میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے صوبہ بہار کے ٹاٹانگر کا سفر کیا جہاں ان کے والد محترم جناب محمود احمد صاحب ٹاٹا اسٹیل پلانٹ میں ایک مناسب عہدے پر فائز تھے جہاں رہ کر مسرورؔ صاحب نے ہائی سکول اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔ وہیں رہ کر انہوں نے رانچی یونیورسٹی سے اردو لٹریچر میں گریجوایشن مکمل کیا۔ اس کے بعد وہ اپنے صوبے اترپردیش تشریف لائے اور اردو لٹریچر میں ایم اے اور بی ایڈ کانپور یونیورسٹی سے مکمل کیا اور ۱۷۹۱ء میں رحمانیہ انٹر کالج مودھا میں بحیثیت اردو ٹیچر تعینات ہوئے۔

ماسٹر مسرورؔ صاحب ایک ہر فن مولا شخصیت کے مالک تھے۔ رحمانیہ کالج میں درس و تدریس کے دوران ہی انہوں نے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ یہاں وہ کالج کے دوسرے اساتذہ جیسے ماسٹر محمود احمد صاحب، ماسٹر کریم صاحب اور ڈاکٹر صغن جو کہ پائے کے شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے زیرِ اثر شعر و سخن و ادب کے میدان میں قدم رکھا اور بہت ہی قلیل عرصے میں اپنا ایک مقام حاصل کر لیا۔

آل انڈیا مشاعروں میں بھی مدعو ہوتے رہے اور اپنے کلام سے اہلِ ذوق کی تسکین کا باعث بنتے رہے۔ ان کی شاعری باقاعدگی سے ”دہلی“ سے شائع ہونے والے ادبی رسالے ماہنامہ ”بیسویں صدی“ میں شائع ہوتی رہی۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ بحیثیت ایک اردو صحافی روزنامہ ”سیاست“ میں اپنے مضامین بھی لکھتے رہے۔

ان کی سپورٹس سے دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔ وہ اپنے کالج کے زمانے میں فٹ بال کے کھلاڑی رہے اور مودھا میں وہ کرکٹ کے بھی ایک نمایاں پلیئر رہے جو اپنی میڈیم پیس باؤلنگ کے لیے مشہور تھے اور مودھا کرکٹ ٹیم کے مستقل ممبر رہے۔ ان کا باؤلنگ ایکشن اس زمانے کے معروف سیاہ فام فاسٹ بالر سر اینڈی رابرٹس سے ملتا جلتا تھا۔ جس کی بنیاد پر ان کا نک نیم ”اینڈی رابرٹس“ کھیل کے حلقوں میں مشہور رہا۔

اپنی زندگی کے آخری سالوں یعنی ۸۰۰۲ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرے چچا مرحوم سہیل احمد صاحب کی ان سے بہت قربت داری بڑھ گئی تھی۔ اکثر وہ مسرورؔ صاحب کی شاعری کے تذکرے اپنے حلقہئ احباب کی محفلوں میں کیا کرتے تھے۔ جس سے ہمیں  پتہ چلتا تھا کہ وہ مسرورؔ صاحب کے کتنے قریب تھے حالانکہ اپنے تدریس کے زمانے میں وہ میرے والد محترم جناب فیروز کمال صاحب کے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ جب بھی صبح کالج جاتے تھے، ہمارے گھر کے باہر سے آواز لگاتے تھے ”فیروز“۔ میں نے ۴۱۰۲ء میں اپنے چچا سہیل سے ذکر کیا کہ ماسٹر صاحب سے درخواست کیجیے کہ وہ اپنی منتخب غزلیں اور نظمیں مطالعہ کے لیے مجھے عنایت فرمائیں۔ اور جب میں ۴۱۰۲ء میں مودھا پہنچا تو انہوں نے اپنی منتخب شاعری اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ ایک ڈائری کی شکل میں عنایت فرمائی۔ اس بارے میں علم نہیں کہ شاید یہی ان کا کل کلام تھا یا ہو سکتا ہے کہ کچھ اور شعری مواد بھی ان کے پاس موجود ہو۔

مسرورؔ صاحب کی زندگی ایک غیر متزلزل سادگی اور عجز و انکساری سے مزین تھی۔ سادہ شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے تعلیم اور ادب کے میدان میں بے انتہا احترام اور کامیابیاں اپنے دامن میں سمیٹیں۔ اس سب کے باوجود انہوں نے اپنے قدم زمینی سطح پر قائم رکھے جو ان کو وراثت میں ملی اقدار کی عکاسی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ان کی اردو ادب سے والہانہ محبت اور وابستگی ان کی پروقار شخصیت کا ایک اہم حصہ تھی۔ ماسٹر مسرورؔ صاحب کی زندگی کا ایک اور پہلویہ بھی تھا کہ ان کی زندگی دکھ اور المیوں سے خالی نہ تھی۔ ان کے دو بیٹوں کا انتقال مختلف حادثوں میں ان کی زندگی میں ہوگیا جو ان کے شب و روز پر دکھ بھرے گہرے سائے چھوڑ گیا۔ یہ ذاتی المیے ان کی شاعری میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جہاں غزلیں اکثر گہری اداسی اور دکھ کا اظہار کرتی ہیں۔ اپنے ذاتی درد کو دلکش شاعری میں بدلنے کی ان کی یہ صلاحیت،ا ن کی ثابت قدمی اور فن کی گہرائی کا ایک ثبوت ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہر اک مکان میں ہے روشنی چراغوں کی

دیا ہواؤں نے میرا ہی کیوں بجھایاہے

۰۰۰۰

عبث مسرورؔ کرتا تھا گلہ تُو تیرہ بختی کا

تری قسمت تو رنج و درد کے محور پہ رکھی تھی

۰۰۰۰

مسرورؔ صاحب بھی ۱۲/ اپریل ۱۲۰۲ء میں آسمانی وبا کووڈ ۹۱ کا لقمہ اجل بن گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ رب العزت مسرورؔ صاحب کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔ مسرورؔ صاحب کا جانا نہ صرف ان کے خاندان، دوست احباب بلکہ ادبی برادری کے لیے بھی ایک گہرا نقصان تھا۔ مجھے ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی وراثت کو محفوظ کرنے کا احساس ہوا۔ اس طرح ان کے کام کو مرتب اور شائع کرنے کا خیال ابھرا جس کا نتیجہ ”زخموں کی کاشت“ کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ مجموعہ صرف ایک خراجِ عقیدت ہی نہیں بلکہ ایک ایسی زندگی کا ماحصل ہے جو ادب اور تعلیم کے لیے وقف تھی۔

سخن پر تیرے اے مسرورؔ حیرت ہے زمانے کو

خیال و فکر کا تیرے کوئی بھی ہم زباں کیوں ہو

۰۰۰۰

”زخموں کی کاشت“ صرف غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ مسرورؔ صاحب کی باطنی کیفیات کا مظہر ہے۔ ان کے جذبات اور تجربات کی گہرائی میں جھانکنے کا روشن دان ہے۔ اس مجموعے میں ان کا ہر شعر خوشی، غمی، کامیابی و ناکامی، امید اور نا امیدی جیسے انسانی جذبات اور احساسات کوبے مثال فراست اور بلاغت سے گرفت میں لینے کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ جیسے ہی قارئین اس کتاب کے صفحات کو پلٹیں گے وہ ان کے الفاظ کی دلکشی اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ہر مصرعہ ایک ایسے انسان کو خراجِ عقیدت ہے جنہوں نے ہماری زندگیوں میں گہرا اور دیرپا اثر چھوڑا ہے۔ آخر میں ”زخموں کی کاشت“ ایک یاددہانی ہے، ان لوگوں کے لیے جو اپنی زندگیوں کو فنون اور علمی برتری کی تلاش میں وقف کر دیتے ہیں۔ ان صفحات کے ذریعے مسرورؔ صاحب ادبی وراثت لوگوں کو متاثر کرتی اور ان کے ذہنوں میں گونجتی رہے گی، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ ان کی شاعری آنے والی نسلوں کے لیے ادبی تانے بانے کا ایک اہم حصہ بنی رہے گی۔

 آخرمیں اپنے دوستوں خاص کر ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی سینئر علیگ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو کہ خود بھی ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف شاعر بھی ہیں اور دوحہ کے سدرہ ہاسپٹل میں چائلڈ ایڈووکیسی پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کو پڑھ کر اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔ ڈاکٹر حسن رضوی سینئر علیگ کا بھی ممنون ہوں جو دوحہ کے حمد ہاسپٹل میں سینئر کنسلٹنٹ پتھالوجی کے عہدے پر فائز ہیں اور شعر و ادب میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کتاب پر خود اپنی رائے کا اظہار کیا بلکہ اپنی والدہ ماجدہ محترمہ پروفیسر انور رضوی جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کی چیئرپرسن رہی ہیں، سے اس کتاب پر تاثرات لکھوانے کا اہتمام کیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حسن رضوی صاحب نے اپنے خسر محترم جناب سید سلیمان احمد مانیؔ جو کہ خود ایک مستند و معتبر شاعر ہیں، سے بھی مسرور احمد مسرورؔکی شاعری پر ایک مضمون تحریر کروایا۔ اس کے علاوہ قطر میں مقیم ادبی دنیا کی معروف و مشہور شخصیت انجینئر آصف شفیع کا بھی سپاس گزار ہوں جو کہ قطر کی ایک معروف کمپنی میں سنیئر انجینئر ہیں اور کئی شعری مجموعوں کے خالق بھی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کی ترتیب و تدوین میں اہم کردار ادا کیا اور ”زخموں کی کاشت“ پر ایک تفصیلی مضمون بھی تحریر فرمایا۔ اور سینئر علیگ جناب علی عمران کا بھی شکریہ جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں بھرپور تعاون کیا۔ آخر میں اپنی بات کا اختتام مسرورؔ صاحب کے اس شعر پر کرتے ہوئے اجازت کا طلب گار ہوں۔

دیکھ کر مسرورؔ اپنے جسم پر زخموں کی کاشت

گاؤں کے کھیتوں کا ہم کو بانکپن یاد آگیا

                                                                ممنون احمد بنگش

                دوحہ۔ قطر


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International