Today ePaper
Rahbar e Kisan International

جون 12: بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کاعالمی دن2025 ء

Events - تقریبات , Snippets , / Friday, June 20th, 2025

rki.news

لاہور: ( فریدہ خانم ) ، پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت ایک سنگین مسئلہ ہے، اگرچہ اس کے خاتمے کے لئے کچھ اقدامات کئے گئے ہیں، لیکن مختلف سماجی و معاشی وجوہات کی بنا پر اسے مؤثر انداز میں ختم کرنا اب تک ایک بڑا چیلنج ہے، اسی تناظر میں، وائز (ویمن ان اسٹرگل فار ایمپاورمنٹ، چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) اور ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین، پنجاب نے لاہور پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں بچوں سے مختلف شعبوں میں جبری مشقت جیسا کہ گھریلو بچہ مزدوری، بھٹہ مزدوری، فیکٹریاں اور زراعت میں مشغول ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بچوں سے مشقت کے ہر قسم کے خاتمے کے لئے فوری اور جامع اقدامات کئے جائیں۔
افتخار مبارک ڈائریکٹر سرچ فارجسٹس اور کوآرڈینیٹر چائلڈ رائٹس مومنٹ نے کہا کہ پنجاب چائلڈ لیبر سروے 2019ء–20ء کے مطابق، پنجاب میں 5 سے 17 سال کی عمر کے تقریباً 60 لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک سنگین صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں جس کے لئے فوری توجہ اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، 33 لاکھ بچے زراعت کے شعبے میں، جب کہ 8 لاکھ سے زائد بچے صنعتی پیداوار (فیکٹریوں) میں کام کرتے ہیں۔ ساہیوال ڈویژن میں سب سے زیادہ یعنی 7.5 لاکھ سے زائد بچے مشقت کرتے ہیں، جبکہ راولپنڈی میں 2.5 لاکھ بچے جبری مشقت میں شامل ہیں۔ ان میں 41 لاکھ لڑکے اور 19 لاکھ لڑکیاں شامل ہیں، جو کہ اس سنگین مسئلے میں صنفی عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے۔سیدہ غلام فاطمہ جنرل سیکٹری بانڈ لبریشن فرنٹ پاکستان نے کہا کہ اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کی مشقت نہایت تشویشناک ہے، جہاں یہ بچے اکثر قرض داری کے بجائے پیشگی قرضہ کے چکر میں پھنسے ہوتے ہیں اور
بشری خالق ایگزیکٹو ڈائریکٹر وائز نے کہا کہ وائز کی طرف سے اخبارات اور آن لائن ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق، یکم جنوری 2019 سے 31 مئی 2025 کے دوران پنجاب میں کم از کم 190 کیسز بچوں کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہوئے، جن میں 43 بچیوں کی ہلاکت ہوئی اور 147 بچے جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ زیادہ تر متاثرہ بچے 4 سے 15 سال کی عمر کے تھے۔ لاہور، فیصل آباد، اور قصور سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شامل ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ گھریلو کاموں میں بچوں سےمشقت غیر قانونی ہے، مگر پھر بھی کھلے عام جاری ہے۔
تاہم، آگاہی کی کمی، قانون پر عمل درآمد نہ ہونا اور تحریری معاہدوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے زیادہ تر گھریلو ملازمین غیر رجسٹرڈ اور غیر محفوظ ہیں۔
پنجاب بیورو آف اسٹیٹسٹکس اور محکمہ لیبر پنجاب کے مطابق، صوبے میں تقریباً 9 لاکھ 12 ہزار گھریلو ملازمین موجود ہیں، جو استحصال، تشدد اور غلامی جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
سید مقداد نقوی ایڈووکیٹ اور بچوں کے حقوق کے سماجی کارکن نے حکومت کی لاپرواہی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ وہ بچوں کے آئینی حق برائے تعلیم (آرٹیکل 25-A) کو یقینی نہیں بنا سکی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایل او گھریلو کام کو جدید غلامی کی شکل تسلیم کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی ہدف 8.7 — جو 2030 تک غلامی کے خاتمے کی بات کرتا ہے، پر پاکستان کو سنجیدگی سے عمل کرنا ہوگا۔
شازیہ سعید، جنرل سیکرٹری ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گھریلو ملازمین کو سوشل سیکیورٹی کارڈز، مفت تعلیم، صحت کی سہولیات اور راشن پر سبسڈی فراہم کی جائے۔عدینہ طیب، چائلڈ سائیکالوجسٹ نے کہا کہ چائلڈ لیبر میں شامل بچوں کی ذہنی صحت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ چائلڈ لیبر کے مکمل خاتمے کے ساتھ ساتھ تشدد کا شکار بچوں کی بحالی اور معاشرے میں دوبارہ شمولیت کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
صباحت جبین، لیبر آفیسر، پنجاب لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جنوری تا دسمبر 2024ء کے دوران چائلڈ لیبر خصوصاً بھٹوں پر قابو پانے کے لیے 13228 انسپکشنز کی گئیں، 164 ایف آئی آرز درج ہوئیں، اور 62 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح پنجاب چائلڈ ایمپلائمنٹ ایکٹ 2016 کے تحت 29609 انسپکشنز ہوئیں، 1132 ایف آئی آرز درج ہوئیں اور 539 افراد گرفتار کے گئے۔
مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ہنگامی اقدامات کرے، خاص طور پر گھریلو بچہ مزدوری، بھٹوں، اور فیکٹریوں سے نکال کر سکول میں پہنچائیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International