تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

حد کر دی اس نے پھر ڈھٹای کی

Articles , Snippets , / Wednesday, September 11th, 2024

فجر ایک گورنمنٹ ہسپتال میں کنسلٹنٹ تھی شام کی ڈیوٹی کے لیے وہ اپنی گاڑی سر پٹ دوڑاتی ہوی عین وقت پہ اپنا اوور لینا چاہتی تھی فجر گھر سے بڑا ہی مارجن رکھ کے گھر سے نکلی تھی مگر برا ہو اس بے ہنگم ٹریفک کا اور اس بے سری، ہٹ دھرم عوام کا جن کے زندگی گزارنے کے اپنے ہی قاعدے اور قانون تھے اور جتنی بے ہنگم ٹریفک یہاں فجر نے دیکھی دنیا کے کسی اور کونے میں نہ دیکھ پای قطاروں کو توڑنا، قطاروں سے ہٹ کے نءی قطاریں بنانا، بے تحاشا ہارن بجا کے ہر کس و ناکس کو پریشان کرنا، اچھے بھلے لوگوں کا بھیک مانگنے کے لیے نت نیے سوانگ بھرنا، چلتی گاڑیوں سے کوڑا کرکٹ سڑکوں پہ پھینک کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنا، اور تو اور فجر نے کءی جانوں کا ضیاع ہوتے اس طرح بھی دیکھا کہ موٹر ویز جہاں گاڑیوں کی رفتار ایک سو بس ہوتی ہے جہاں پیدل چلنے والوں کا سڑک پار کرنا سختی سے منع ہے وہاں سے سڑک پار کرتے ہوے جلد باز لوگ خواہ مخواہ میں ہی برے طریقے سے جان کی بازی ہار گئے.
خیر فجر پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک جام میں صفر کی رفتار پہ تھی. نہ یہ بے سری ٹریفک کا جم غفیر چھٹتا تھا نہ لوگوں کو راہ ملتا تھا سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے، سر نیہوڑاے اپنی اپنی قسمت کو کوس رہے تھے، گرمی بھی اپنی جولانی پہ تھی فجر کا دل ایک سو کی رفتار سے دھڑکے جا رہا تھا الجھن کا کوی سرا ہاتھ نہ آتا تھا اللہ جانے کس عذاب نے ٹریفک کی روانی کو روک رکھا تھا اچانک فجر کو ایک موٹر سائیکل سوار جس نے اپنی بایک پہ ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ چار عدد سواریوں کو اپنے پیچھے بٹھا ارےنہیں بٹھا نہیں لٹکا رکھا تھا اور مخالف ممنوعہ سمت سے آ کر پوری ٹریفک کی روانی کو پچھلے ایک گھنٹے سے جام کر چھوڑا تھا اب جو ٹریفک جام کا شکار لوگوں نے اسے برا بھلا کہا تو الٹا وہ سب پہ برس پڑا کہ تم سارے ہوتے کون ہو مجھے لعن طعن کرنے والے کیا تمہارے باپ کی سڑک ہے؟
بلاشبہ اسے ہی کہتے ہیں کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے یعنی اک تاں چوری تے اتوںسینہ زوری. ڈھٹای یا ڈھیٹ پنہ اسی وبا کا نام ہے. آپ بلنڈر پہ بلنڈر سر عام لگاتے ہیں اور نہ ہی نادم ہوتے ہیں نہ ہی پشیمان الٹا خواہ مخواہ اپنی حماقتوں اور بلنڈرز پہ اتراتے پھرتے ہیں.
ساری دنیا اسی غنڈہ گردی پہ چل. رہی ہے بھلے مشیر ہیں یا وزیر بھلے سرمایہ دار ہیں یا دیہاڑی دار اچھے اور نرم دل انسان معدودے چند ہی ملیں گے باقی تو ایک جتھا ہے ہاجوج ماجوج کا جو لوگوں کا خون جونک کی طرح چوس بھی رہا ہے اور یہ اعلان کرنے میں بھی ذرا لیت و لعل سے کام نہیں لیتا کہ دنیا انھی کندھاڑوں پہ سوار چل رہی ہے.
میرے گھر میں صغریٰ ایک طویل عرصے تک کام کرتی رہی میں سارا سارا دن ڈاکٹری کرتی رہ جاتی اور صغریٰ میرے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال میں جتی رہتی ہم دونوں خواتین ہی در حقیقت کولہو میں جتے ہوے بیل تھے خیر کءی سالوں کے ساتھ کے بعد صغریٰ کام چھوڑ کے گاوں چلی گءی ایک دن میرے ہسپتال والوں نے فری کیمپ کے سلسلے میں مجھے بھی کال کیا میں بھی ڈیوٹی سمجھ کے چل پڑی وہ کہتے ہیں ناں کہ نوکر کی تے نخرہ کی. خیر اتفاق سے یہ گاوں میرے گھر کام کرنے والی ماسی صغریٰ ہی کا گاوں تھا کیمپ کے خاتمے پہ صغری مجھے اپنے گھر لے گءی اس کے گھر جا کے میں حیران رہ گءی کہ کمرے میں لگے پردوں سے لیکر کچن کے برتنوں تک تمام اشیاء میرے گھر کی تھیں جو ماسی صغری میری لاعلمی میں مجھ سے پوچھے بغیر اپنے گھر ڈھوتی رہی میں نے کچن میں چاے بناتی ہوی ماسی صغری کی آنکھوں میں ندامت کی جھلک دیکھنے کی بڑی کوشش کی مگر مجھے وہ ندامت کہیں نظر نہ آی بلکہ صغری کی تمسخر اڑاتی نگاہوں میں ایک خطرناک پیغام تھا کہ یہ ہمارا حق ہے جو ہم چھین کر لے لیتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ کام کر کے اپنے گھروں کا کام ماسیوں سے کروانے والی تمام خواتین کا نہ تو گھر اپنا ہوتا ہے اور نہ ہی در ان کا سب کچھ ان کے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کا ہی ہوتا ہے. ارے ورکنگ خواتین کا تو شوہر بھی اپنا نہیں ہوتا. ایک دن میرا کک آٹھ مرغیاں ذبح کروا کے لایا اتفاقاً میں نے مرغے کی ٹانگیں گنیں تو وہ بارہ تھیں میرے ناقص علم کے مطابق تو آٹھ مرغوں کی سولہ ٹانگیں ہونی چاہیے تھیں میں نے جب کک سے استفسار کیا تو اس کی ڈھٹای کی داد دینی پڑ گءی پکا سا منہ بنا کے بولا بیبی جی چار مرغیاں ایک ایک ٹانگ والی تھیں اور یہ. کک ہمیشہ بل ڈبل بنوا کر لاتا تھا اور بڑے دھڑلے سے کہتا پھرتا تھا ہم نے بھی تو مالکوں کی پلیٹ میں ہی سے کھا نا یے. یہ تو خیر چھوٹے چھوٹے چوروں کی چھوٹی چھوٹی ڈھٹای کی داستانیں ہیں بڑے چوروں کے کارنامے اور کرتوت دیکھ کے تو میرے چودہ طبق ہی روشن ہو گیے تھے تقریباً دس سال پہلے لندن میوزیم میں جب میں نے مصر سے لیکر گندھارا آرٹ اور تمام دنیا کی تہذیب و ثقافت کو باقاعدہ طور پر شو کیسوں میں سجے ہوے دیکھا حضرت علی کی تلوار سے لے کر ٹیپو سلطان کی تلوار تک کو ان کے قبضے میں دیکھا جو ساری عمر لوگوں پہ اپنی چالاکی اور عیاری سے نہ صرف حکومت کرتے رہے بلکہ تمام اہل دنیا کو زلیل و خوار بھی کرتے رہے ساری دنیا میں ریل کے عالیشان نظام کو رایج کرتے ہوئے ان کے ذہن میں تھا کہ تمام ممالک سے ان کے نوادرات چرا کے اپنے دیس لے جانے ہیں اور چوری شدہ مال کی نمائش سے ذرا بھی نہیں ڈرنا.
اس نے تو حد ہی کی ڈھٹای کی
اس نے تو حد ہی کی جگ ہنسای کی
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail,com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International