مسرور احمد مسرورؔ کا یہ شعری مجموعہ ان کا پہلا اور آخری مجموعہ ہے جس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کا اہتمام ہمارے محترم دوست ممنون احمد بنگش صاحب نے نہایت اخلاص، محنت اور جانفشانی سے کیا ہے۔ جو خود بھی ایک باذوق ادبی شخصیت کے مالک ہیں۔مسرور احمد مسرورؔ ان کے کالج کے زمانے کے استاد تھے اور اپنی عمدہ شاعری اور ادبی قد کاٹھ کی وجہ سے اپنے علاقے کے ادبی و سماجی حلقوں میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس مجموعے کی شاعری کو اپنی ایک ڈائری کی صورت میں جمع کر لیا تھا جو اب ان کی وفات کے بعد اشاعت کے مرحلے تک آیا ہے۔اس مجموعے کا نام ”زخموں کی کاشت“ بھی مسرورؔ صاحب کا ہی تجویز کردہ ہے۔ مجھے جب اس مختصر مجموعے کا مسودہ دکھایا گیا توبے حد مسرت ہوئی کہ یہ خوب صورت شاعری اپنے مدفن سے نکل کر شعرو ادب کی فضاؤں میں گونجتی ہوئی سنائی دے گی۔اس کارِخیر کی انجام دہی کے لیے میں ممنون صاحب اور مسرور احمد مسرورؔ مرحوم کے متعلقین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
”زخموں کی کاشت“ در اصل مسرورؔ صاحب کی اپنی زندکی کے شب و روز کی ہی آپ بیتی ہے جسے انہوں نے نہایت قرینے سے شعروں کا جامہ پہنایا ہے۔ ان کی شاعری زندگی کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے شعروں میں وہ جہاں اپنے اوپر بیتے مصائب اور زندگی کے رنج و آلام کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں جسے وہ ”زخموں کی کاشت“ سے تعبیر کرتے ہیں وہیں پروہ زندگی کے ان مسائل سے نبرد آزما ہوتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں وہ بغض، کینہ، عداوت اور بے وفائی جیسے منفی انسانی رویوں پر شاکی نظر آتے ہیں وہیں پر پیار، محبت اور انسان دوستی کا پرچار کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے دل کو چھو لینے والے رومانوی اشعار بھی کہے ہیں اور زندگی کی حقیقتوں اور معاشرتی رویوں کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کی شاعری میں بہت حد تک مذہبی رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ وہ قوم کا درد بھی رکھتے ہیں اور اسلامی اور مشرقی روایات کی پاسداری کرتے بھی نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حضور اقدس ﷺ کی شان میں نعتیہ اشعار بھی کہے ہیں، ماں جیسی عظیم ہستی کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اسلامی شعائر کو بھی اپنے اشعار کا موضوع بنایا ہے۔نعت کے یہ اشعار دیکھیے جن میں رسول کریم ﷺ سے ان کی بے پناہ محبت کا اظہار بجا طور پر دکھائی دیتا ہے۔
مدینے کے نظارے ہیں مری چشمِ تصور میں
نہیں ایسا کوئی چشمِ نگاراں جو میں رکھتا ہوں
۰۰۰۰
خبر کیا تھی بچشمِ خود مدینہ ہم بھی دیکھیں گے
طوافِ کعبہ کا منظر سہانا ہم بھی دیکھیں گے
جدھر دیکھوں اُدھر ہیں احمدِ مرسلؐ کے دیوانے
صفا مروا پہ چڑھنا اور اُترنا ہم بھی دیکھیں گے
مسرور احمد مسرورؔ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے ہاں تغزل کی موجودگی اور شعریت کا بھرپور احساس اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت جلوہ گر دکھائی دیتا ہے اور ان کی شاعری کا یہی وصف ہے جو انہیں اپنے مقامی شعرا سے ممتاز کرکے اہم مقام عطا کرے گا۔ ان کے اشعار میں فکری گہرائی اور گیرائی اس پر مستزاد ہے۔
دے کے میرے ہاتھ میں کاغذ کی اک چھوٹی سی ناؤ
تو نے میرے سامنے گہرے سمندر رکھ دئیے
میں تمہیں نذرانہئ گل عمر بھر دیتا رہا
کس لیے میری لحد پر تم نے پتھر رکھ دئیے
۰۰۰۰
گُل و سنبل پہ رکھی تھی، کسی نے زر پہ رکھی تھی
مگر ہم نے بساطِ زندگی پتھر پہ رکھی تھی
۰۰۰۰
ان کی یادوں کی اک خوبصورت پری
میری راتوں کی نیندیں چرا لے گئی
۰۰۰۰
زندگی قیدِقفس میں ڈھل گئی
اُڑتے اُڑتے جب شکستہ پر ہوئے
۰۰۰۰
مجموعی طور دیکھا جائے تو مسرور احمد مسرورؔ کی شاعری روایتی شاعری کی ہی توسیع ہے۔ انہوں نے زیادہ تر روایتی بحروں اور زمینوں میں ہی شعر کہے ہیں مگر کہیں کہیں مشکل زمینیں بھی استعمال کی ہیں۔مثلا ان غزلوں کے مطلعے دیکھیے جس میں انہوں نے مشکل ردیف کا بڑی سہولت کے ساتھ استعمال کیا ہے اور نبھایا بھی ہے۔
سرِ بازار اک شیشہ بدن کی آزمائش ہے
مقابل اس کے دستِ سنگ زن کی آزمائش ہے
۰۰۰۰
نگاہِ ناز کے تیور برہنہ
ہو جیسے سامنے خنجر برہنہ
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ اگرچہ ان کا یہ شعری مجموعہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا ہے مگر انہیں اپنی فنی ریا ضت اور شعر گوئی کی استعداد پر مکمل اعتماد تھا اور انہیں یقین تھا کہ ان کے اشعار اپنی بھر پور توا نائیوں کی بدولت اہل علم و ادب کو متوجہ کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے کہ انہوں نے اپنے ساری زندگی فنی ریاضت اور شعر گوئی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بسر کر دی۔
گذاری زندگی شعر و سخن میں
نگینہ تب کہیں جا کر جڑا ہے
آصف شفیع
دوحہ۔ قطر
Leave a Reply