Today ePaper
Rahbar e Kisan International

حیدر قریشی کی غزل: فن، فکر اور احساس کا حسین امتزاج

Uncategorized , / Tuesday, October 28th, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔

آئیے پہلے ہم جرمنی میں مقیم جناب حیدر قریشی صاحب کی اس خوبصورت غزل کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ پھر مزید گفتگو کا آغاز کریں گے ۔
غزل:
یہ واقعہ ہوا اپنے وقوع سے پہلے
کہ اختتامِ سفر تھا، شروع سے پہلے
نہیں تھی لذتِ سجدہ، رکوع میں لیکن
اک اور کیف تھا، کیفِ خشوع سے پہلے
نصوص کو بھی کبھی دیکھ لیں گے فرصت میں
ابھی نمٹ تو لیں “مومن” فُروع سے پہلے
معافی مانگنا پھر بعد میں خلوص کے ساتھ
گناہ کرنا خشوع و خضوع سے پہلے
اسی کے پاس تو جانا ہے لوٹ کر آخر
سو خوب گھومئے، پھِرئے، رجوع سے پہلے
سپاہِ شب نے تو اندھیر کر دیا تھا بہت
سَو آ گیا ہوں میں وقتِ طلوع سے پہلے
یہ عید آئی ہے کس قتل گاہ میں حیدر
سلام پھیر لیا ہے رُکوع سے پہلے

اردو شاعری کی دنیا میں ایسے شعرا کم ہیں جن کے کلام میں روایت کا حسن بھی ہو، تجربے کی تازگی بھی، اور احساس کی گہرائی بھی۔ حیدر قریشی صاحب ان خوش بخت شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے شعری اظہار میں کلاسیکی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے جدید احساسات اور عصری شعور کو بھی شامل کیا ہے۔ ان کی غزل نہ صرف فنِ شاعری کی باریکیوں کا مظہر ہے بلکہ انسانی احساسات کی گہرائیوں میں جھانکنے کا وسیلہ بھی ہے۔
پیشِ نظر غزل میں حیدر قریشی صاحب نے جس مہارت سے قوافی اور ردیف کو نبھایا ہے، وہ ان کی فنی پختگی اور شعری ریاضت کا واضح ثبوت ہے۔ ردیف “سے پہلے” ایک ایسا فنی چیلنج ہے جو عام طور پر شاعر کے لیے مشکل ہوتا ہے، مگر قریشی صاحب نے اسے نہایت سلاست اور قدرت کے ساتھ نبھایا ہے۔ ہر شعر میں ردیف اور قافیہ یوں جڑتے ہیں جیسے خیال کا فطری تسلسل ہو، زبردستی کا احساس کہیں نہیں ہوتا۔ ان کی زبان سادہ مگر پر اثر ہے۔ لفظیات میں نرمی اور تہذیب جھلکتی ہے، جبکہ بیان میں گہرائی اور بصیرت نمایاں ہے۔ غزل کے اشعار میں فکری ربط بھی ہے اور احساس کی شدت بھی۔ قریشی صاحب نے محض قافیے نبھانے کے لیے اشعار نہیں کہے بلکہ ہر شعر میں معنی کی ایک نئی پرت کھول دی ہے۔
یہ غزل بظاہر مذہبی و روحانی تجربے سے جڑی معلوم ہوتی ہے، مگر اس میں انسانی کمزوریوں، ندامت، اور توبہ کے لطیف احساسات کو جس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے وہ اسے محض مذہبی شاعری کے درجے سے بلند کر دیتا ہے۔ اشعار میں خشوع و خضوع، گناہ و مغفرت، ندامت و قبولیت جیسے مضامین نہایت دلنشیں انداز میں پیش ہوئے ہیں۔ شاعر کے ہاں گناہ کا اعتراف محض الفاظی نہیں بلکہ روحانی اضطراب کا آئینہ ہے۔ وہ دکھاتا ہے کہ بندہ گناہ کے بعد جب سچے دل سے رجوع کرتا ہے تو اس کے خضوع میں بھی حسن ہوتا ہے اور ندامت میں بھی نجات کا امکان۔ے
حیدر قریشی صاحب کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے روایت کے دامن کو تھامے رکھا مگر جدید ذہن اور بدلتے حالات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ ان کے یہاں جذبہ اور عقل کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں سوزِ دروں بھی ہے اور فکرِ بلند بھی۔ وہ محض الفاظ کے تاجر نہیں، بلکہ احساس کے فنکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار دل کی گہرائیوں تک اتر جاتے ہیں اور قاری دیر تک ان کے سحر میں رہتا ہے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ غزل حیدر قریشی صاحب کی اعلی’ ترین شعری فنی پختگی، فکری وسعت، اور روحانی احساس کا حسین مظہر ہے۔ انہوں نے نہ صرف قوافی و ردیف کے تقاضے خوب نبھائے بلکہ غزل کو معنی و احساس کی ایسی بلندی پر پہنچایا جہاں فنی حسن اور فکری گہرائی ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ بے شک، یہ کلام اردو غزل کی روایت میں ایک خوبصورت اور بیمثال اضافہ ہے اوردنیائے ادب میں قریشی صاحب کے فن کی تابناکی کا روشن ثبوت بھی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International