تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

“حیران کن خودنوشت”

Articles , Snippets , / Sunday, July 21st, 2024

ویسے تو پشتو ادب میں سوانح عمری یا خودنوشت لکھنے کا رواج کم ہی رہا ہے، اور جو کچھ لکھا گیا ہے، ان میں بعض شخصیات تو نہایت اہم جبکہ بعض کم اہم ہیں، کچھ نقادوں کے مطابق سوانح عمری ان لوگوں کو لکھنا چاہیے، جن کی زندگی میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ، انقلابات، سانحات اور فتوحات گزر چکی ہوں، عام حالت زندگی والے اگر اپنے سوانح لکھیں گے، تو پڑھنے والے کیا حاصل کرسکیں گے؟ اس وجہ سے بعض خودنوشت یا تو مقبول نہیں ہوپاتے یا مصنف لوگوں کو کتاب تحفتاً تقسیم کررہا ہوتا ہے.
اب آتے ہیں پشتو کے بزرگ شاعر و ادیب فیروز افریدی کی خودنوشت سوانح عمری “جوند سفر سفر” کی طرف، جس کے معنی زندگی سفر در سفر کے ہیں، موصوف لکھاری تو اردو پشتو دونوں زبانوں کے ہیں، لیکن اپنی زندگی کے حالات پشتو میں قلمبند کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ویسے اگر اردو میں لکھتے تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوتا، اور اردو ادب میں ایک بہترین اور چونکا دینے والی کتاب کا اضافہ ہوتا-
جہاں تک میں فیروز افریدی صاحب کو جانتا تھا تو مجھے قطعاً علم نہیں تھا کہ ان کا بچپن کیسے گزرا، معاشی حالات کیسے تھے، کیونکہ میں انکو صاحب جائداد اور صاحب حیثیت تصور کرتا رہا،رہا جبکہ یہ میرے لیے بہت بڑا انکشاف تھا کہ موصوف نے ہاتھ پاؤں کی سخت مزدوریاں کی ہے، اور جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، تو بھی مشقت کرنے اور محنت مزدوری کرنے کا سامنا تھا، اس کے علاوہ آپ نے عرب ممالک بالخصوص قطر میں مختلف ادبی تنظیموں کی بنیاد ڈالی، اور مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے، جن کی تفصیل کتاب میں عرق ریزی سے لکھی گئ ہے، میرے خیال میں ان ادبی تنطیموں کی تاریخ لکھنا ایک الگ کریڈٹ ہے، جو افریدی صاحب کو جاتا ہے، مسافرت کی زندگی کے مصائب کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اور اپنے تجربے کی نچوڑ سے نئے مسافروں کے لیے کچھ مشورے اور کچھ نصیحتیں بھی لکھی گئ ہیں، جس کی مثال میں نے اس سے پہلے والی خود نوشتوں میں نہیں دیکھی، سب سے بڑا انکشافات سے بھرپور باب پشتو اکیڈمی سے متعلق ہے، کہ کون کون سے حضرات پشتو اکیڈمی کے ختم کرنے کے لیے سرگرم تھے،تھے اور کس طرح فیروز صاحب اور ان کے دوستوں نے انتھک جدوجہد کرکے پشتو اکیڈمی کی ساکھ بحال کی، مختصراً یہ کہ اس ایک کتاب سے قاری حضرات بہت کچھ جان اور سیکھ سکتے ہیں، میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ یقین ہے کہ جو بھی اس کتاب کو پڑھیں گے، تو فیروز افریدی صاحب کو ایک نئے سرے سے جان سکیں گے، اور ان کے وسیع تجربے اور جدوجہد سے اپنے اندر بھی تبدیلیاں لاسکیں گے …….


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International