Today ePaper
Rahbar e Kisan International

خان کی ڈائری طنز و مزاح کا تازہ اور دل آویز اسلوب

Articles , Snippets , / Monday, November 3rd, 2025

rki.news

تبصرہ: شازیہ عالم شازی
اردو نثر کے عظیم دبستان میں طنز و مزاح ایک ایسی روایت ہے جو محض ہنسانے کے لیے نہیں بلکہ سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے تخلیق ہوئی۔ پطرس بخاری کے شگفتہ مضامین ہوں، کرنل محمد خان کی سادہ مگر گہرے تاثر کی حامل نثر ہو، یا ابنِ انشا کی شوخ اور زندہ لہجہ ،ہر ایک نے روزمرہ حیات کی تلخیوں کو مسکراہٹ کی چادر اوڑھا کر پیش کیا۔ اسی دبستان میں محمد اصغر خان کی کتاب “خان کی ڈائری” ایک روشن اور نمایاں اضافہ ہے، جو نہ صرف مزاح کے خالص ذائقے سے آشنا کرتی ہے بلکہ قاری کو اپنی زندگی، اپنے معاشرے اور اپنے رویّوں پر نظرِ ثانی کی دعوت بھی دیتی ہے۔
خان کی نثر میں سادگی، روانی اور بے تکلف صداقت نمایاں ہے۔ ان کی تحریروں میں کہیں بھی لفظوں کی نمائش یا بیان کا تصنع نہیں ملتا۔ وہ زندگی کو جیسا دیکھا، محسوس کیا اور برتا، ویسا ہی لکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں مصنوعی قہقہے نہیں بلکہ اندر سے اٹھنے والی مسکراہٹ عطا کرتی ہیں۔۔
ان کا طنز تلخی سے پاک ہے ان کے مزاح میں سادگی ،برجستگی اور ہلکی چبھن ہے، جو دل پر اترتی ہے، مگر دل آزاری نہیں کرتی۔ یہ اسلوب پطرس کی ہلکی پھلکی خوش مزاجی اور کرنل محمد خان کی شگفتہ سادگی دونوں کی یاد دلاتا ہے، مگر ان کی تحریر اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے اصغر خان صاحب کے یہاں معاشرتی حس اور مزاح کا شعور موجود ہے محمد اصغر خان روزمرہ زندگی کے بڑے مسائل کو چھوٹے جملوں میں بیان کرنے کی مہارت رکھتے ہیں
مثلاً ان کے ایک کالم “کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا۔۔۔؟” میں ہمارے معاشرتی تضادات بڑی سادگی سے ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح “کہیں اینٹ کہیں روڑا” میں سماجی بگاڑ کو ہنسی کے پردے میں دکھایا گیا ہے اور “صفائی نصف ایمان ہے” میں عوامی بے اعتنائی پر بغیر سخت لہجے کے ایک مؤثر طنز ملتا ہے یہ مزاح محض تفریح نہیں بلکہ قاری کے ذہن میں دیرپا سوال چھوڑ جاتا ہے ان کی خاکہ نگاری بھی ایک خوبصورت ادبی ورثہ ہے ان کا مضمون “باپ بیتی” بہت عمدہ اور موضوع کے لحاظ سے جامع تحریر ہے
کتاب کا یہ خاکہ نہ صرف سوانحی تاثر رکھتا ہے بلکہ تعلقاتِ خاندان، وقت کے بدلتے تیور، اور انسانی جذبات کی لطافتوں کو مزاح کے نرم بادل میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے اس تحریر میں مصنف کا دل بھی نظر آتا ہے اور دماغ بھی،
خان کی ڈائری کو اگر بین الاقوامی ادب سے تقابل کریں توان کے مزاح کا دائرہ صرف اردو روایت تک محدود نہیں لگتا، بلکہ اس میں عالمی ادب کی خوشبو بھی محسوس ہوتی ہے جیسے
مارک ٹوئین کی سادگی،ڈگلس ایڈمز کی شوخی
چسٹرٹن کی فکری لطیفہ آرائی ان کے ہاں بے ساختہ طور پر ملتی ہے مگر ان کے جملے کبھی فلسفہ نہیں سناتے، مگر اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں موجود فلسفہ خود بخود آشکار ہو جاتا ہے “خان کی ڈائری” صرف ایک کتاب نہیں بلکہ یہ بطور ادبی میراث ہے جو آنے والی نسلوں کے لیئے دیرپا اور موثر ثابت ہوگی یہ کتاب محض تفریح نہیں بلکہ ادبی سرمایہ ہے،اس میں قاری خود کو دیکھتا ہے اپنے شہر کو پہچانتا ہے اور اپنے لوگوں کی عادتوں پر ہنستے ہوئے شرماتا بھی ہے
یہ وہ مزاح ہے جو قوموں کی ذہن سازی کرتا ہے۔
“خان کی ڈائری” نہ صرف طنز و مزاح کی روایت میں ایک مضبوط اضافہ ہے بلکہ اردو نثر کے قاری کو ایک نئی تازگی اور خوش ذوقی عطا کرتی ہے۔ اس کتاب میں شخصیت کی سچائی، مشاہدے کی باریکی، اور زبان کی شیرینی یوں یکجا ہیں کہ قاری نہ صرف لطف لیتا ہے بلکہ مصنف سے قربت محسوس کرتا ہے۔
یہ کتاب یقیناً آنے والی نسلوں کے لیے اردو ادب کا معتبر حوالہ رہے گی اور محمد اصغر خان طنز و مزاح نگاری کے اُن ناموں میں شامل کیے جائیں گے جنہوں نے ہنساتے ہوئے سوچنے کی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مزید نکھار عطا کی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International