تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
معاشرتی اور سماجی فضاٶں میں اگر ضرورت ہے تو وہ محبت اور اخوت کی جہانگیری ہے جس سے زندگی کے تقاضے نہ صرف پورے ہوتے ہیں بلکہ اتحاد اور یکجہتی کو فروغ بھی ملتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مصلحت اندیشی میں کہاں کھڑے ہیں۔زندگی کے خوبصورت روپ اور رنگ کی خوبصورتی کا انحصار اچھے رویوں سے ہے۔لیکن معاشرتی فضا میں شدت پسندی اور بے چینی کے آثار نظر آتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔آپس کے جھگڑے اور فسادات سے نہ صرف اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے بلکہ سماج اور معاشرہ کے بنیادی اصول بھی متاثر ہوتے ہیں۔اسلامی نقطہ نظر سے فتنہ قتل سے بھی سخت تر ہے۔آج ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کا بھرم داغ دار ہے۔بھاٸی اپنے ہی بھاٸی کا مخالف اور دشمن نظر آتا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟اس نازک صورتحال کے اسباب جاننے کی ضرورت ہے۔سماجی رویوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے جب انسان خواہشات کا غلام بن کر زندگی بسر کرتا ہے تو اداسیاں اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔اس کے پس منظر میں سرور کاٸنات معلم انسانیت کی زندگی کے درخشاں پہلو روشن مثال ہیں۔ایک ایسی خوبصورت تبدیلی اسوہ حسنہ سے رونما ہوٸی۔جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔اس کی روشنی میں اور قرآن مجید کی روشن تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوۓ نہ صرف شعوری جذبے بیدار ہوتے ہیں بلکہ زیست کا سامان بھی تیار ہوتا ہے۔بقول شاعر:-
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اس میں سماج اور معاشرے کے حالات سدھارنے کا درس موجود ہے بلکہ ایک مقصد عظیم بھی ہے جس سے زندگی کے سفر میں مثالی تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔شاعر نے بہت قیمتی بات کی طرف توجہ دلانے کی سعی کی ہے
خدا کرے کہ مرا عہد مصلحت اندیش
منافقانہ رویوں سے ماورا ہو جاۓ
ضرورت اس امر کی ہے معاشرے اور سماج سے منافقت ختم کی جاۓ۔مثبت اور اچھے رویوں کو فروغ دیا جاۓ۔اس ضمن میں تعلیم کا کردار بہت اہم ہے۔تعلیم کے عمل سے نہ صرف مثبت سوچ مضبوط ہوتی بلکہ شعور بھی بیدار ہوتا ہے۔انسان بنیادی طور پر حیوان ناطق ہے۔مل جل کر رہنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔اس کے تقاضے اسی صورت پورے ہوتے ہیں جب خوندگی کی شرح میں اضافہ ہو اور فکروخیال کے زاویے پاٸیدار ہوں۔استاد کا تعمیر معاشرہ اور تشکیل سماج میں کردار کلیدی شمار ہوتا ہے۔یہ اعزاز اساتذہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ فن تدریس اور تعلیم کی روشنی سے قوم کے وجود میں نہ صرف تحریک پیدا کرتے ہیں بلکہ امن اور اطمینان کا اجالا بھی کرتے ایک مقدس کام کی تکمیل کرتے ہیں۔ماضی کے حالات و واقعات کا مطالعہ کریں تو حقیقت کھلتی ہے ہمیشہ جن اقوام نے اپنے من کی منشا کے تقاضے پورے کرنے کی ناکام سعی کی وہ زوال پذیر ہوٸیں اور بربادی ان کا مقدر بن گٸی۔اس لیے امن کے فروغ اور اطمینان کی فضا کے قیام کے لیے کردار ادا کرنا کامیابی ہے۔دانشمند اقوام ہمیشہ ریاستی اصولوں کی پاسداری کرتے رعایا کی فلاح اور بہتری کا ساماں کرتی ہیں۔آپس کے معاملات سدھارنے اور ملک و ملت سے محبت کے لیے قاٸم اصولوں پر عمل کرنے سے خیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مصلحت اندیش ہونا سب سے بڑی کامیابی ہے۔انسان کو ہمیشہ سماج اور معاشرہ کی تعمیر نو میں مثالی کردار ادا کرنا چاہیے۔اعتدال پسندی سے زندگی دلکش ہی نہیں بن پاتی بلکہ ترقی کی راہیں بھی کھلتی ہیں۔زندگی کا مقصد تو مخلوق کے لیے بہتری پیدا کرنا ہے ۔مخلوق چونکہ خدا کا کنبہ ہے اس لیے اس کی بھلاٸی کے کام کرنے چاہییں۔فرقہ بندی اور گروپ بندیوں سے ہمیشہ انسانیت کا بھرم متاثر ہوا۔اس کی روشنی میں تمام انسانوں کو آپس کے اختلافات ختم کرتے مثالی نظام کے فروغ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔سماج اور معاشرے میں افراد کی دیکھ بھال اور ان کے مساٸل حل کرنا سب سے بڑی خدمت ہے۔کتنے افراد ہیں جو بےروزگاری اور غربت کا شکار ہونے سے مصاٸب برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ کتنے بچے ہیں جو تعلیم حاصل تو کرنا چاہتے ہیں لیکن وساٸل کے فقدان کے باعث تعلیمی اداروں کا رخ نہیں کرتے۔بنیادی طور پر اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں جاننے سے سماج اور معاشرے کی فضاٶں میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ملک و ملت سے محبت کا تقاضا بھی یہی ہے مساٸل کا حل باہمی مذاکرات سے تلاش کیا جاۓ۔فتنے اور فساد زندگی کے سفر کو بری طرح متاثر کرتےہیں۔ایک دوسرے کا احترام اور عزت و قدر سے انسانیت کا وقار بلند ہوتا ہے۔عفوودرگزر کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔وہ معاشرے تباہ و برباد ہوتا ہے جس میں انا پرستی کا جنوں غالب ہو ۔وسعت فکروخیال سے ہی تو انسان کا کردار بلند ہوتا ہے۔خیال و فن کی رعناٸی اور علم کے چراغ ہی انسانیت کا وقار بلند کرتے ہیں۔بقول شاعر:-
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاٶں ڈِنگ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Fakharzaman085@gmail.com
Leave a Reply