رحمان بن حیدر
مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر خطرے کی سرحد پر ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ میزائل حملے، ڈرونز، اور پراکسی جنگیں—یہ سب اب صرف خبروں کا حصہ نہیں، بلکہ عالمی سلامتی کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکے ہیں۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق کے لئے کھڑا ہے، جبکہ اسرائیل اسے اپنی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تنازعہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہا۔ امریکہ، روس، چین، خلیجی ریاستیں—سب کسی نہ کسی طرح اس کھیل کا حصہ بن چکی ہیں۔
اسرائیل کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جبکہ ایران کو روس اور چین کی خاموش پشت پناہی۔ دونوں ممالک عسکری سطح پر تیار اور سفارتی سطح پر خاموش ہیں۔ ایسے میں اقوامِ متحدہ کا کردار صرف بیانات تک محدود ہے۔
اس ساری صورت حال میں پاکستان جیسے ملک کے لئے پالیسی بنانا نہایت نازک مرحلہ ہے۔ ایک طرف فلسطینیوں سے تاریخی ہمدردی، اور دوسری جانب ایران سے برادرانہ تعلقات۔ ایسے میں پاکستان کو جذبات سے زیادہ عقل سے کام لینا ہوگا۔
یہ سوال اب بار بار اٹھ رہا ہے: کیا یہ تیسری عالمی جنگ کی تمہید ہے؟ اگرچہ فی الحال جنگ محدود ہے، مگر پراکسی گروپوں، تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، اور عالمی مارکیٹ پر اس کے اثرات سے لگتا ہے کہ یہ آگ جلد یا بدیر کئی اور ملکوں کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک صرف اپنے مفادات کا سوچ رہے ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں اب بھی خاموش رہیں، تو ایک چنگاری وہ شعلہ بن سکتی ہے جو سب کچھ راکھ کر دے۔
دنیا کو جنگ نہیں، امن چاہیے۔ لیکن امن کی خواہش صرف کمزور ملکوں کے دلوں میں ہے۔ طاقتوروں کے ایجنڈے کچھ اور ہ
Leave a Reply