rki.news
وہ اپنی پی ایچ ڈی تھیسسز کی آخری لائن لکھ کر یوں رُکی جیسے کوئی تھکا ہوا مسافر مدید صحرا پار کرکے پہلی بار سبزہ زار دیکھے اور خوشی سے بہاراں ہو جائے، کاغذ پر سیاہی ابھی پوری طرح خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ ہوا نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر گویا اسے مبارک باد دی۔
ایک ایسی مژدہ جس میں مسافت کے بوجھ، جدائی کا نمک اور دعا کی خوشبو سب باہم مربوط تھے۔ لائبریری کی چھت اس لمحے کائنات کی آخری منڈیر لگی، جہاں کھڑے ہو کر انسان اپنی پوری زندگی کو نیچے بکھری ہوئی تصویروں کی طرح دیکھ سکتا ہے۔
سامنے افق پھیلا تھاوہی افق جس پر کبھی دو سایے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ اب ان میں سے ایک سایہ صرف شاعری میں زندہ تھا اور دوسرا اس کے دل کے گرد مٹی کی طرح جما ہوا۔ وہ جانتی تھی کہ کچھ رشتے وقت کےہاتھوں نہیں بگڑتے، بل کہ امید کے تانبے میں دھات کی کمی سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کا رشتہ بھی انھی کم زورتاروں سے بنا ہوا تھا جو پہلی ہی آندھی میں ٹوٹ پڑے اور بکھر کر ریزہ ریزہ ہوگے،مگر پھر بھی برسوں تک گھنے درخت کی شاخوں میں الجھے رہے۔
اس چھت تک آنے والی ہر سیڑھی اس کی زندگی کا کوئی باب، کوئی زخم یا کوئی دعا تھی۔ پہلی سیڑھی پر وہ شام لکھی تھی جب اس کے محبوب نے کہا تھا: تم میری آخری منزل ہواور آخری سیڑھی پر وہ صبح نقش تھی جب اسی شخص نے ایک لفظ میں اس کی دنیا کو گرہ کی طرح کاٹ دیا ان دونوں لفظوں کے درمیان اس کی پوری عمر سمٹی پڑی تھی، جیسے دو بھاری پتھروں کے درمیان کاغذ کا ایک پتا۔
ان سیڑھیوں میں کہیں ماں کے ہاتھوں کی حرارت تھی جو سرد راتوں میں اس کے کانپتے وجود پر دعا کا کمبل ڈال دیتی؛ کہیں بہنوں کی نرم آوازیں تھیں جو خوابوں کے بوجھ اٹھا کر کلاسوں تک لے جاتی رہیں۔ کہیں احباب کے وہ پرخلوص پل تھے جو دکھ کے دریا پر پل بنے رہے، کہیں ان اجنبیوں کے نقش بھی تھے جنھیں وہ کبھی نام سے نہیں جانتی تھی بس ہوسٹس جو ہر سفر میں پوچھتی چائے لیں گی؟ یا وہ درختیں جو راستوں میں سایہ بن کر کھڑی رہتیں، یا ہوسٹل کی وہ راتیں جہاں سہیلیاں اس کی آنکھوں کی نمی سے نظموں کا مفہوم سمجھ لیتی تھیں۔
لیکن کچھ سیڑھیاں ایسی تھیں جن پر کبھی نہ رکی وہ سیڑھیاں اُس شخص کی تھیں جو اس سے دور تھا، مگر اس کے دل کے پاس کہیں خاموشی کی شکل میں موجود بھی۔ وہ شخص جو زندگی سے رخصت ہو چکا تھا مگر اس کی تنہائی کے اندرونی آسمان پر اب بھی ایک ستارے کی طرح روشن تھا۔ کچھ دوریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا ماپا فٹوں اور میلوں میں نہیں بل کہ دھڑکنوں کی گنتی میں ہوتا ہے۔
منڈیر پر کھڑے وہ یہ سب محسوس کرتی رہی کامیابی اسے تھامے کھڑی تھی مگر خوشی کہیں پیچھے بھٹکی ہوئی تھی، جیسے کوئی پرندہ نشیمن کا راستہ بھول جائے اسے لگا کام یابی نے اس کے ایک ہاتھ میں روشنی رکھ دی ہے اور دوسرے ہاتھ سے خوشی چھین لی ہے اس نے اپنے تھیسسز کا انتساب کھولا وہاں لکھا تھا:
“اُن سب کے نام جو میری راتوں کے پہرے دار رہےاور اُس کے نام جو میری زندگی میں نہ رہا مگر میری دعا میں ہمیشہ متنفس ہے۔”
ایک لمحے کو اس نے آنکھیں بند کیں اور اسے لگا جیسے اس کی ساری اداسی اس کے اندر ایسے لہریں بناتی ہے جو گھاؤ تو دیتی ہیں مگر انھی لہروں کی رگڑ سے چمک بھی پیدا ہوتی ہے۔ وقت نے اس پر مرہم نہیں رکھا تھا مگر اس نے اسے یہ ضرور سکھا دیا تھا کہ ٹوٹنے والے لوگ شیشے نہیں ہوتے—وہ کبھی کبھی ستارے بن کر چمکنے لگتے ہیں۔
اسی وقت دروازہ کھلا، ماں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھےاور دوستوں کی آوازیں، خوشی سے بھیگی ہوئی۔ وہ ان سب کے درمیان کھڑی تھی، اپنے زخموں کی مٹی سے اُگے ہوئے اس نئے سفر کے ابتدائی کنارے پر، اور اسے محسوس ہوا کہ شکست نے اسے توڑ نہیں دیا اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ دوبارہ جنم لے سکے۔شہر کی گلیوں میں شام اتر رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ آج کی یہ شام ہار کی نہیں دوبارہ جی اٹھنے کی شام ہے۔
از: شاہ فیضی
Leave a Reply