تازہ ترین / Latest
  Wednesday, October 23rd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

خواتین کا بھول پن، کوتاہیاں اور جگ ہنسایاں

Articles , Snippets , / Friday, March 15th, 2024

خواتین کا بھول پن، کوتاہیاں اور جگ ہنسایاں
حوریہ گاوں کی جم پل تھی بیاہ کے شہر آ بسی تھی کہاں پنڈ کی کھلی فضا میں چاروں سمت پھیلا ہوا نیلا آسمان، سرسراتی ہوی تازہ ہوایں، چہچہاتے ہوے پرندے، بابا کی کھلی حویلی، خالص دودھ اور دہی کی بہاریں، ہر طرح کی سبزیاں اور پھل، گیہوں، باجرے، مکی اور باسمتی چاولوں کے من کو موہ لینے والے ذایقے اور کہاں یہ ڈربے جیسا فلیٹ جہاں گھٹن، اندھیرا اور اداسی تھی حوریہ کو اپنے صحن کے ڈربے میں بند وہ مرغے اور مرغیاں بری طرح یاد آے جنہیں وہ موقع ملتے, ہی ڈربے کا چھوٹا سا دروازہ کھول کے باہر نکال دیتی تھی اور انہیں آزاد کر کے اماں کی جھڑکیاں بھی ہنسی خوشی کھا لیتی تھی اسے قید کسی بھی روپ میں پسند نہیں تھی نہ ہی اپنے لیے اور نہ ہی اپنے پیاروں کے لیے مگر شادی کے بعد سہانے خوابوں کے ہنڈولے میں پینگ چڑھاتے ہوئے حوریہ نے یہ ایک پل کے لیے بھی نہ سوچا تھا کہ وہ شادی کے بعد خود صبح سے شام تلک ایک ڈربے نما فلیٹ میں قید ہو جاے گی اس کا شوہر ایک بینک میں اچھی پوسٹ پہ تھا اس کا خیال بھی رکھتا تھا مگر گاوں کی کھلی فضاوں میں سانس لینے والے شہروں کی اس گھٹن سے پریشان ہی رہتے ہیں. سو حوریہ نے بھی اس گھٹن کا جی بھر کے سامنا کیا شادی کا پہلا سال اسی رونے دھونے اور گاوں کو یاد کرنے میں گزر گیا مسءلہ اس وقت بڑھا جب حوریہ کی ڈلیوری کا وقت قریب آیا اس مشکل وقت میں آسانی اور مدد کے لیے حوریہ کے والدین حوریہ کی چھوٹی بہن کشف کو گاوں سے شہر چھوڑ گیے. کشف حوریہ کی نسبت چلبلی، شرارتی اور من موہنی تھی. حوریہ سیدھی سادھی اپنے کام سے کام رکھنے والی تھی حاملہ حوریہ کی بے بسی اور لاچاری پہ اس کے شوہر اور سگی بہن نے ذرا ترس نہ کھایا اور اپنے عشق مٹکے میں ایسے ڈوبے کہ بچے کی ڈلیوری کے ساتھ ہی حوریہ کی چھٹی ہو گءی اور کشف گھر کی مالکن بن گئی.
اور میں نے ایسی کتنی ہی خواتین کو خوار ہوتے ہوے دیکھا ہے جو اپنے شوہروں کی بیوفای کا شکار ہویں اور شکار تھیں ان کی کمسن کام والیاں ان کی چھوٹی بہنیں، ان کی بھانجیاں. عیاش اور بے وفا مرد سرہانے بیٹھا وہ سانپ ہے جو اپنی ہی بیوی کو بھی ڈنک مارنے سے باز نہیں آتا. کتنی ہی وفادار اور باکردار خواتین ایسے رنگین مزاج مردوں کی عیاشیوں کا شکار ہوتی ہیں
شاہنی جی پچاس کے پیٹے میں تھیں چار بیٹیوں کی ماں تھیں پچھلے پندرہ سال سے بیوگی کی سفید چادر اوڑھ رکھی تھی اور پورے وقار سے اپنا اور اپنی بیٹیوں کا آسرا بن کے زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھے ہوے تھیں پھر ان کی پرسکون اور رواں دواں زندگی میں بھی ایک مرد ان کا منہ بولا بیٹا بن کے برے وقت کی طرح ان کی زندگی میں شامل ہوگیا منہ بولے بیٹے نے شاہنی کا اتنا اعتماد حاصل کر لیا کہ اس کا گھر میں آنا جانا بنا کسی روک ٹوک کے ہو گیا بھولی اور سیانی بیانی اولاد نرینہ کو ترسی ہوی شاہنی اس موقع پہ بری طرح خطا کھا گءی منہ بولے بیٹے نے شاہنی کی سب سے چھوٹی سولہ سالہ بیٹی ماہین کو اپنے سبز باغوں کے پھندے میں ایسے پھنسایا کہ ماہین نے نہ منہ بولے بیٹے کی عمر دیکھی نہ اس کی بیوی اور چار بیٹوں کی پروا کی کم سن حسینہ محبت کے جھوٹے جھولے پہ ایسے سوار ہوی کہ اسے گندم والی گولیاں کھا کر ہی اپنی جان کی بازی لگا کر ہی شاہنی ماں کو یہ باور کروانا پڑا، اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑا کہ بیٹا صرف ماں کی کوکھ میں پرورش پانے والا مرد ہوتا ہے اور بھای صرف ماں جایا ہی ہوتا ہے
یہ منہ بولے بھائی اور منہ بولے بیٹے کا conceptانتہای تباہ کن اور معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہے. زید بن حارث حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے لیکن اسلام نے منہ بولے بیٹے کا شرعی، معاشی اور مذہبی حیثیت سے کوئی مقام نہیں رکھا. تو شاہنی کو اپنی چھوٹی سولہ سالہ بیٹی کو منہ بولے بیٹے نام کے سانپ سے ڈسوا کے موت کے منہ میں دھکیل کے یہ بات پلے پڑ گءی کہ محرم، نامحرم. کی تفصیلات انسانی کاروبار حیات کے لیے کیوں ضروری ہیں.
محرم نا محرم
کوی محرم یا نامحرم
کوی محروم الفت سے
تیرے چہرے کی نرمی سے
تیرے ہاتھوں کی گرمی سے
کوئی محرم یا نامحرم
کوئی پابند سلاسل
اور زارا بیچاری بھی تو سولہ سال ہی کی تھی ماں بچپن میں دوران زچگی زیادہ خون بہہ جانے سے جانبر نہ ہو سکی تو باپ نے فٹا فٹ فوتگی میں آی ہوی ایک بیوہ سے شادی کر کے اسے اپنے معصوم بچوں پہ مسلط کر دیا بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی تھی اس کے دو بچے بھی تھے زارا
سوتیلی ماں کے ناروا سلوک کے باعث زیادہ تر اپنی بڑی بہن کے پاس ہی رہتی تھی شہری جو زارا کا بہنوی تھا مگر بہنوی کم اور شیطانی چرخہ زیادہ تھا اس نے نہ ذات برادری کا خیال کیا نہ اپنے دو بچوں کی ماں اپنی بیوی کا اور سولہ سالہ زارا جو اب والدین کے بعد اس راکشش کے رحم و کرم پہ تھی کے ساتھ وہ بھیانک کھیل کھیلا جس کا انجام سولہ سالہ زارا کا قتل اور شھری کی حراست جو بعد میں عمر قید کی سزا میں منتقل ہو گءی تو غور فرمائیے گا کہ سماجی ناہمواریاں اور رشتوں کی باگ دوڑ کی الجھنیں عورت نام کی جنس کے لیے کتنی کڑی سزا اور کتنی بری موت ہیں ہاں ایسے باحیا، باکردار، اور شریف مرد بھی ہمارے اور آپ کے ارد گرد موجود ہیں جو نفس پہ پہرے بٹھا کے ہر مشکل دور میں سے گزر جاتے ہیں اور سر خرو ٹھہرتے ہیں.
اور آج کل کے سوشل میڈیای دور میں تو بے کار معمولی پڑھے لکھے لونڈے لپاڑوں نے روپے ہتھیانے کے لیے عجب ہی short cut ڈھونڈ لیا ہے سوشل میڈیا پہ روپے پیسے والی آنٹیوں کو trap کرتے ہیں جو ماں بنتی ہو اسے ماں بناتے ہیں جو گرل فرینڈ بنتی ہو اسے گرل فرینڈ بناتے ہیں پڑھای، بیروزگاری اور عیاشی کے لیے موٹی موٹی رقمیں بٹورتے ہیں مہنگے مہنگے تحایف بٹورتے ہیں اور حوا کی یہ بدھو اور بھولی بھالی بیٹی چند جھوٹی موٹی کی تعریفیں سن کے یہ ٹیکے خوشی خوشی لگواتی ہے. Charity اور صدقہ خیرات ان معاملات سے علیحدہ subjects ہیں خیر یہ subjects بھی وقتا فوقتاً سر اٹھاتے ہی رہتے ہیں. پھر جو بھولی بھالی خواتین کا جتھا پیروں فقیروں کا شیدائی ہے پوچھیے مت من پسند شادی کے لیے
محبوب کو قدموں میں گرانے کے لیے
اولاد نرینہ کے لیے
خوشحالی کے لیے
یہ بیوقوف خواتین ہی ہیں جو نو گز لٹھا، دیسی مرغے، دیسی بکرے، نقد رقم ایسے پیروں فقیروں کو آنکھیں بند کر کے صرف ہدیہ ہی نہیں کر آتئں بلکہ ان شیطانوں کی جنسی تسکین کا سامان بھی بن جاتی ہیں اور ایک تو ہمارے دور پار کے رشتہ داروں میں ایک ایسی خاتون بھی گزری ہیں جنہیں صفائی کا کریز تھا اتنا کہ انہیں صفای کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہ تھا لہذا سسرال سے ایک چودہ سالہ لڑکی نویراں بی بی کو مستقل ہی گھر میں رکھ چھوڑا نویراں ہی گھر کی اصل مالکن تھی کھانے پکانے، کپڑے دھونے استری کرنے بچوں کی جی بھر کے بری تربیت کرنے میڈم کے شوہر کی دل پشوری کرنے کے لیے نویراں تھی ناں
All in one
میڈم جی کو تو صفای ہی سے فراغت نہ تھی اور اس گھر کی تباہی ایسے ہوی کہ پوچھیے مت تو اس دور کی تمام قابل اور خوبصورت خواتین سے درد مندانہ التماس ہے کہ کبھی کبھی اپنی کاہلی کو سلام کر کے اپنے گھر کو خود سے بنانے کی کوشش کیجیے اور زمانے کے ماڈرن نوسر بازوں اور پیروں فقیروں سے پرہیز کی حتیٰ الامکان کوشش کیجئے آپ کا اور ہمارا رب راکھا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International