نام: دریشی طارق مغل
سائل: کہا جاتا ہے؛ لوگوں کے گھر گھر جاکر مانگنے والے کو۔ ( یہ تو دنیاوی اعتبار سے بھکاری کی تعریف ہوگئی)
شرعی اعتبار سے فقیر یا بھکاری کہا جاتا ہے: جس کے پاس ایک وقت کا بھی کھانا نہ ہو۔ حدیث پاک میں آتا ہے رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: “بھکاری وہ نہیں جسے ایک دو کھجور کے دانے واپس لوٹا دیں”۔ اسی طرح ایک حدیث میں مانگنے والے کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: “اَلیَدُ العُلیَا خَیرُٗ مِّنَ الیَدِ السُّفلٰی” ترجمہ: “اوپر والا(دینے والا) ہاتھ بہتر ہے لینے والے(مانگنے والے) ہاتھ سے” اور اگر اس بھکاری کے پیشے کو گہرائی سے دیکھا جائے تو کسی حد تک یہ عمل “شرک صغیر” (چھوٹے شرک) کی ایک قسم محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ “رازق” فقط خدا ہے۔ تو مانگنے کے لیے ہاتھ بھی اسی کے آگے بھیلانے چاہیں۔ ناکہ؛ رزاقیت کی اس صفت میں خدا کے ساتھ انسانوں کو شریک کیا جائے۔ اسی وجہ سے حدیث میں ایسے عمل کی وعید آتی ہے: کہ رسول اللہ نے فرمایا: ” جو دنیا میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے گا قیامت کے روز ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہوگی۔ اور ایسے انسانوں کے چہرے سیاہ کرکے داغے جائینگے” (العیاذباللہ)!
تو ثابت ہوا حدیث کی رو سے اصل فقیر وہ ہے جس کے پاس ایک وقت کا کھانا میسر نہ ہو۔ اور شاید ہی آج ایسا کوئی ہو جس کے پاس ایک وقت کا کھانا نہ ہو۔ ہاں! اگر باالفرض کسی کی ملکیت میں ایک وقت کا کھانا نہ بھی ہو تو کیا شریعت اس بندے کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ گھر گھر جاکر یا سڑکوں، چوکوں پر نکل کر لوگوں سے خدا کے واسطے سے اپنی غربت کی بیخ کنی کے مطالبات کرے۔ شریعت کسی کی عزت نفس مجروح نہیں کرتی۔ بلکہ؛ تمام تر انسانوں کے جذبات و احساسات کی رعایت رکھتے ہوئے فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اب ایسے انسان مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کی تمام تر توجہ اپنی طرف مبذول کراکر گھر میں بیٹھے ان بے چارے “قابل اہل، سفید پوش” حضرات کو غربت کی لمبی نیند سلا دیتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں تک پہنچنے سے پہلے ہی جیب ان پیشہ ور بھکاریوں کے آگے خالی کرنی پڑتی ہے۔ جس کے باعث ان پیسوں کے حق دار خودکشی جیسی “حرام موت” کو گلے کا طوق بنانا باخوشی قبول کرلیتے ہیں۔ تو ایسے سفید پوشوں کی ناجائز موت اور غربت کے فقر و فاقہ کا ذمہ دار کون۔۔؟
کیا یہ پیشہ ور بھکاری، یا ان کے سوال پر دینے والے ہم۔۔۔، یا ملک کے حکمران؟ دقیق نظر سے دیکھا جائے تو ان سفید پوشوں کے مجرم ہونے میں تینوں کا کردار ہی کسی حد تک باہم مشترک ہے۔ البتہ؛ آخری شخصیت کا کردار زیادہ نمایا ہے۔ کیونکہ؛ رعایا کی تمام تر ذمہ داریاں اس منصب کے حامل شخص پر عائد ہوتی ہیں۔ لہذا؛ ملک کی اس تنقیص کے سدباب کے لیے ہمارے ملک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ مہنگائی کے زور کو توڑیں۔ اور لوگوں کو ان کی تعلیم و قابلیت کی بنیاد پر کمانے کے ذرائع فراہم کریں۔تاکہ دنوں میں ان بھکاریوں کی تعداد کی بیخ کنی ہوسکے۔ اور اصل حق دار ابھر کر سامنے آسکیں۔
Leave a Reply