تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

“دل میں اندھیر ہے شکووں کے ڈھیر ہے تیری دیوانی ہوئی تیرا قصور ہے

Literature - جہانِ ادب , / Wednesday, May 15th, 2024

[7:37 pm, 15/05/2024] Abdul Hadi Qureshi RKI Rep Islamabad: آخر عبداللہ (ساحر) اور زہرہ کی ملاقات کی گھڑیاں آگئ کیوں کہ قدرت کے مسودے میں ان کا ملن درج تھا۔ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ عبداللہ اپنا جنم دن زہرہ کے ساتھ منانا چاہتا تھا۔ جس کے لیے اس کا جنم ہوا تھا۔ والدین کے منع کرنے باوجود وہ شادی سے پہلے زہرہ کو سالگرہ منانے لے گیا۔ راستے میں انہیں تین لڑکے ملے۔ جن کا سرغنہ سنی نامی لڑکا تھا۔ کاشی اور سڈ(Sid) نامی لڑکوں نے عبداللہ کی چیکنگ کر چکے تھے اور جو کچھ اس کے پاس تھا اس نے انہیں تھما دیا تھا۔ مگر عبداللہ نے زہرہ کو گاڑی میں بیٹھا کر گاڑی لاک کر دی تھی۔اچانک ہی ان کی نظر زہرہ پر پڑی تو ان کا سرغنہ سنی نے حکم دیا کہ اس لڑکی کو نیچے اتارو، عبداللہ جلدی سے گاڑی کے آگے آکر کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں سڈ نامی لڑکے نے جلدی سے پسٹل نکال لی اور عبداللہ نے اس سے پسٹل چھیننی چاہی مگر اچانک سڈ کے ہاتھ سے پسٹل چل گئی اور ان کا سرغنہ سنی گولی کا نشانہ بنا۔ یہ منظر دیکھ کر عبداللہ فی الفور وہاں سے روانہ ہوگیا، مگر وہ بھاگنا صرف وقتی تھا۔
کیوں کہ ان لڑکوں نے قتل کا الزام عبداللہ پر لگا دیا تھا اور اسی سبب اسے سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ کئی ماہ زہرہ کے گھر والے عبداللہ کی رہائی کے منتظر رہے مگر رہائی تو سزائے موت میں متبدل ہوگئی تھی۔ پھر چارو ناچار زہرہ کے والدین نے کہیں اور اس کا رشتہ طے کر دیا، کیوں کہ عبداللہ کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ اور عبداللہ نے زہرہ کو دوسرے جگہ شادی کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ مگر اب زہرہ عبداللہ (ساحر) کے علاؤہ کسی کا سوچنا بھی کبیرہ گناہ سمجھتی تھی۔

” بے پروا میں تیرے
عشق وچ بندھی آں
بس تیرا مُکھڑا دسے
باقی تے میں اندھی آں “

زہرہ کی حرماں نصیبی اسے عبداللہ سے بہت دور لے گئی اور اس کی شادی حویلی کی مالکن کے بیٹے سے ہوگئی۔ شادی والی رات بابر کے بڑا بھائی سکندر کے دشمنوں نے سکندر کو گولی ماری مگر گولی غلطی سے بابر کو لگ گئی۔ یوں زہرہ نے نکاح ہوتے ہی بیوگی کی چادر اوڑھ لی۔ اور دوسری طرف عدالت نے صحیح مجرم کو پکڑ کر عبداللہ کو باعزت بری کر دیا۔ عبداللہ دوبارہ درگاہ کا ہو رہا۔
وہاں عبداللہ کی ملاقات بڑی سرکار سے ہوئی وہ اس سے اپنی بہو (زہرہ) کے لیے دعا کرانے آئی تھیں۔ اور جب زہرہ اور عبداللہ کا سامنا ہوا تو زہرہ مزید بیمار ہوگئی۔ کیوں کہ اس کا گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ گیا تھا۔ بڑی سرکار نے اپنے بڑے بیٹے سکندر سے زہرہ کی شادی کرانے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ سکندر کی بیوی کے انتقال کے بعد اس کے دونوں بچے زہرہ سے مانوس ہوگئے تھے۔ اس لئے وہ اسے دوبارہ اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں۔
صحیح وقت پر سکندر کے سامنے عبداللہ اور زہرہ کا ماضی کھل گیا۔ پھر سکندر نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرتے ہوئے زہرہ کا ہاتھ عبداللہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ عبداللہ کا ہاتھ پکڑتے ہی زہرہ نے کہا.
” اب اگر مجھے چھوڑ کر جانے کا سوچا تو سلطان بابا کو شکایت لگا دوں گی۔”
اور پھر دونوں ہنس پڑے۔ زمین و آسمان ان کی خوشی میں رقص کرنے لگے۔

کنزہ محمد رفیق
[7:37 pm, 15/05/2024] Abdul Hadi Qureshi RKI Rep Islamabad: Column No # 1
Dated 15-5-2024
[7:37 pm, 15/05/2024] Abdul Hadi Qureshi RKI Rep Islamabad: …………
[7:38 pm, 15/05/2024] Abdul Hadi Qureshi RKI Rep Islamabad: کالم نگار:سیدہ نزہت ایوب . . (اسلام آباد)
“میری دھرتی”
بیتے برسوں کے بات ہے، کہ میری دھرتی پر روشن صبحیں اترتی تھیں۔
چمکیلی شوخ کرنیں میری دھرتی کی جبیں پر بوسے دینے آتی تھیں۔
میری دھرتی سنہری کرنوں کو فخر سے کہتی کہ احسان مت جتلانا۔۔۔۔۔۔کہ تو نے مجھے اعزاز بخشا۔۔۔۔۔ میں تو وہ ہوں جس کے ماتھے پر، جس کے سینے پر، جس کے ہر گوشے پر، ہر ذرے پر ،کبھی غازیوں نے گھوڑے دوڑائے، شہیدوں نے خوں بہائے،
عشق نے لٹا کر سب کچھ ،گنوا کر سب کچھ کٹا کر گردنیں ،چڑھا کر نیزوں پر سر ، کٹے سروں سے قرآں سنوائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر صبح ایسی روشن کہ اٌجالے بھی ناز کرتے۔
رات کو آسماں پر تارے چمکتے تو میں اپنے کچے مکان کے کچے آنگن میں کھڑی تاروں کے جھرمٹ میں اک تارہ بن جاتی، اور دن کے اٌجالے میں میری دھرتی کے کھیت مسکراتے، سرسوں کے پھول یوں جادو جگاتے کہ میں ننھی تتلی بنکر پھولوں کا حصہ بن جاتی۔۔۔۔۔۔ ہر پتی ، ہر ڈالی، ہر شاخ مجھے پکارتی کہ آ میرے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کیسے بھول جاؤں، اٌن بھیگے موسموں کو ، جب ٹھنڈی میٹھی سی پُروا بارش کے آنے کا پتہ دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔دھان کی فصل کی خوشبو،اور گندم کی فصل کہ جب پک جاتی ۔۔۔۔تب گمان ہوتا جیسے سورج کی کرنوں کیساتھ پکی گندم ہنسی، ہنسی میں کہتی ہو کہ دیکھو، دیکھو تم سے زیادہ ہماری بالیں سنہری ہیں اور کرنیں انکا مان بڑھاتے ہوئے نہایت محبت سے گویا ہوتیں کہ تم ٹھیک کہتی ہو بہت خوبصورتی دی تجھے مالک نے ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اگلے ہی پل کہتیں کہ تمہیں حسن ہماری بدولت ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری دھرتی کے کھلیانوں کی شان تب سوا ہو جاتی ،جب سرسوں کھلتے، تو کھیتوں کے بیچوں بیچ دھواں بلند ہونے لگتا۔
ایک میٹھی سے مہک دور، دور پھیل جاتی اور جب میں کسی پگڈنڈی پر لٹکتے ہوئے ، مہک محسوس کرتی تو میری آنکھوں میں خوشی ناچنے لگتی۔
میری زبان میں ذائقوں کی مٹھاس اٌتر آتی، اور نظر اس مخصوص دھوئیں کو کھوجنے لگتی جو کسی سرسوں کے کھیت کی اوٹ سے اٹھ رہا ہوتا ۔پھر پتہ نہیں میری دھرتی کو کس کی نظر کھا گئی ۔۔۔
ایسا شر پیدا ہوا ، جس کے گناہ کا وبال میری دھرتی پر سیاء رات بن کر چھا گیا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بڑے سالوں کے بعد مجھے وہی عکس اپنی دھرتی پر نظر آرہا ہے ،وہی فضا، وہی ہوا ہے، وہی ابر، وہی ہوا ہے، وہی شوخ کرنیں،
اور وہی رحیم آفتاب ہے، وہی کلیوں کی چٹک ہے ، وہی میٹھی مہک ہے ، وہی ٹھنڈی پھوار، وہی سرسوں کی قطار ہے، مجھے لگ رہا ہے کہ ضرور میری دھرتی پر کوئی نیکی کا پودا اٌگ آیا ہے۔ جس کی برکتوں سے اتنی برکتیں برسنے لگیں ہیں۔۔
دعا ہے
خدائے متعال اس پودے کی عمر دراز فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ پودا ٹھنڈی چھاں دیتا تناور درخت بن جائے اور میری دھرتی پر بسنے والے اس سے راحت پائیں۔
آمین


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International