Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“دنیا چڑیا گھر لگتا ہے” انسان اور کائنات کی اخلاقی، فکری و وجودی تمثیل

Articles , / Wednesday, October 15th, 2025

rki.news

کالم نگار ۔۔۔۔۔۔ نواز ساجد نواز

دنیا ایک چڑیا گھر لگتی ہے یہ فقرہ بظاہر سادہ ہے مگر اپنے اندر ایک گہرا فلسفہ، نفسیاتی مشاہدہ اور اخلاقی تنبیہ سموئے ہوئے ہے۔ چڑیا گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں مختلف نوعیت، رنگ اور مزاج کے جانور ایک محدود دائرے میں زندگی گزارتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے انسان دنیا کے اس وسیع پنجرے میں اپنے مفادات، خواہشات اور بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ شاعر، مفکر یا مشاہدہ کرنے والا انسان جب دنیا کو چڑیا گھر کہتا ہے تو وہ دراصل اس کے اندر کی بے ترتیبی، خودغرضی، مصنوعی سکون اور ظاہری خوشیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ دنیا ایک منظرگاہ بن چکی ہے، جہاں ہر فرد ایک کردار ہے، مگر کم ہی لوگ انسانیت کے معنی جانتے ہیں۔

اگر دنیا چڑیا گھر ہے تو اس کے قیدی یا باشندے مختلف رنگوں، عقلوں اور رویوں کے حامل ہیں۔ یہاں محبت کرنے والے بھی ہیں اور نفرت پھیلانے والے بھی، مخلص بھی ہیں اور منافق بھی۔ بالکل چڑیا گھر کی طرح جہاں ہر پنجرے میں ایک الگ مخلوق اپنے انداز میں زندہ ہے، انسانوں کی دنیا میں بھی ہر شخص اپنی انفرادیت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تنوع ہی زندگی کو خوبصورت بھی بناتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ کوئی خاموش کبوتر کی طرح صلح پسند ہے، تو کوئی باز کی مانند تیز و خود غرض۔ مگر یہی اختلافات انسانی معاشرے کا حسن بھی ہیں، کیونکہ اگر سب ایک جیسے ہوتے تو زندگی کا مفہوم محدود ہو جاتا۔ اس رنگارنگی میں ہی انسانیت کا کینوس مکمل ہوتا ہے۔

چڑیا گھر میں جس طرح کچھ جانور پُرامن ہوتے ہیں اور کچھ خطرناک، اسی طرح دنیا میں بھی اچھے اور برے لوگ ساتھ ساتھ بستے ہیں۔ اچھے لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے روشنی، محبت اور خیر کا ذریعہ بنتے ہیں جب کہ برے لوگ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ دو انتہائیں انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ اللہ نے خیر اور شر دونوں قوتیں انسان کے اندر رکھی ہیں تاکہ وہ اپنی آزادیٔ ارادہ سے نیکی کا انتخاب کر کے بلند ہو، یا بدی کا انتخاب کر کے گر جائے۔ لہٰذا دنیا کی بھلائی انہی لوگوں سے قائم ہے جو خود کو سدھار کر دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں۔ اگر سب اچھے ہو جائیں تو آزمائش کا تصور ختم ہو جائے گا، اور اگر سب برے ہوں تو زندگی جہنم بن جائے۔ یہی توازن اس دنیا کے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

دنیا انسان کے لیے بہترین یونیورسٹی ہے۔دنیا کو ایک “یونیورسٹی” کہنا ایک گہرا استعارہ ہے۔ جیسے چڑیا گھر مختلف مخلوقات کا مطالعہ کرنے کی جگہ ہے ویسے ہی دنیا ایک ایسی جامعہ ہے جہاں انسان زندگی کے ہر پہلو کا علم حاصل کرتا ہے۔ یہاں کوئی مستقل استاد نہیں بلکہ ہر تجربہ، ہر انسان، ہر دکھ اور ہر خوشی ایک سبق بن جاتی ہے۔ دنیا کی یہ یونیورسٹی ہمیں صبر، ایثار، برداشت، محبت اور عقلِ عملی کے مضامین پڑھاتی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ یہاں کوئی باقاعدہ نصاب نہیں — ہر انسان کا تجربہ اس کا نصاب ہے۔ کوئی محبت کے سبق میں کامیاب ہوتا ہے، کوئی نفرت کے امتحان میں فیل۔ دنیا کی یونیورسٹی میں فطرت امتحان لیتی ہے، وقت نتیجہ سناتا ہے، اور انسان خود اپنا طالب علم بھی ہے اور استاد بھی۔

یونیورسٹی میں صرف پڑھا جاتا ہے لیکن یونیورسٹی میں سیکھنا ایک علمی عمل ہے مگر دنیا کی زندگی میں یہ سیکھنا عملی ہوتا ہے۔ یہاں صرف پڑھا نہیں جاتا بلکہ ہر لمحہ جیا جاتا ہے۔ دنیا کے اس چڑیا گھر میں انسان کو کتابی علم سے زیادہ تجربے کا علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ یہاں غلطی ایک سبق ہے، نقصان ایک استاد ہے اور وقت سب سے بڑا معلم۔ اگر انسان محض الفاظ میں علم تلاش کرے تو وہ دنیا کے مقصد سے غافل رہتا ہے۔ زندگی محض مشاہدہ نہیں بلکہ شرکت چاہتی ہے۔ اس لیے جو انسان دنیا کی یونیورسٹی میں خود کو عمل سے جوڑ لیتا ہے، وہی کامیاب ہوتا ہے۔ اس سیکھنے کے عمل میں صبر، عقل اور رحم سب شامل ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ سیکھنے کے لیے سننا، دیکھنا اور برداشت کرنا ضروری ہے۔

دنیا اصل تجربہ گاہ ہے
جس میں چڑیا گھر میں مخلوقات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے مگر دنیا میں انسان خود تجربے کا موضوع ہے۔ یہ زندگی ایک عظیم تجربہ گاہ ہے جہاں انسان اپنی فطرت، قوتِ ارادہ، محبت، نفرت اور ایمان کے تجربات سے گزرتا ہے۔ ہر دن، ہر رشتہ، ہر حادثہ ایک تجربہ ہے جو انسان کے اندر نیا شعور پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں جو تکلیف آتی ہے وہ دل کو نرم کرتی ہے جو کامیابی ملتی ہے وہ شکر سکھاتی ہے۔ یہ تجربہ گاہ اس لیے حقیقی ہے کہ یہاں ہر نتیجہ انسان کے اعمال کا عکس ہوتا ہے۔ یہی تجربے انسان کو پختگی عطا کرتے ہیں، اور یہی وہ عمل ہے جو روح کو ترقی دیتا ہے۔ چڑیا گھر میں جانور تماشہ بنتے ہیں مگر دنیا کی تجربہ گاہ میں انسان خود اپنے اعمال کا تماشہ دیکھتا ہے۔

دنیا میں اپنے لیے ہر کوئی جیتا ہے۔دنیا کی بڑی سچائی یہی ہے کہ ہر فرد اپنی بقا، اپنی خواہش اور اپنی کامیابی کے لیے جیتا ہے۔ یہ خودغرضی کبھی جبلت ہے، کبھی مجبوری۔ مگر انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ انسان کے پاس “ضمیر” ہے۔ اگر وہ صرف اپنے لیے جیتا ہے تو وہ چڑیا گھر کا ایک عام جانور بن جاتا ہے لیکن جب وہ دوسروں کے لیے جینے لگتا ہے تو وہ انسان کہلاتا ہے۔ دوسروں کے دکھ بانٹنا، کسی کا سہارا بننا، کسی کے زخم پر مرہم رکھنا — یہی انسانیت کی اصل ح
پل دوروح ہے۔ دنیا میں اگر ہر شخص صرف اپنے مفاد کے لیے جیے تو معاشرہ پنجرہ بن جاتا ہے، مگر اگر لوگ ایک دوسرے کے لیے جیئیں تو یہی دنیا جنت بن سکتی ہے۔

دوسروں کے لیے جینا۔۔۔۔۔ چڑیا گھر سے انسانیت تک کا سفر
“دنیا چڑیا گھر لگتا ہے”
کا مفہوم دراصل اس وقت بدلتا ہے جب انسان دوسروں کے لیے جینا سیکھ لیتا ہے۔ جب وہ خودغرضی کے قفس سے نکل کر ہمدردی، محبت اور قربانی کی فضا میں سانس لیتا ہے تو یہ چڑیا گھر ایک بامعنی دنیا بن جاتا ہے۔ دوسروں کے لیے جینا انسان کو حیوانیت سے انسانیت تک لے جاتا ہے۔ یہی روحِ کربلا، یہی تعلیمِ انبیا اور یہی مقصدِ حیات ہے۔ انسان اگر دوسروں کے دکھ کو محسوس کرے تو وہ صرف زندہ نہیں، بامقصد زندہ ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کا یہ چڑیا گھر اس وقت خوبصورت لگنے لگتا ہے جب انسان اپنی قیدِ نفس توڑ کر دوسروں کے لیے روشنی بن جائے۔ تب دنیا محض ایک تماشہ نہیں رہتی بلکہ ایک عبادت گاہ بن جاتی ہے، جہاں ہر عمل انسانیت کی خدمت میں ڈھل جاتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International