تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

دو ٹکے کے انسان اور ساتویں درجے کے لکھاری

Articles , Snippets , / Tuesday, August 6th, 2024

غرور نامی عذاب جب ابلیس پہ اترا تو وہ اللہ کی نافرمانی پہ اس طرح اترا کہ نہ صرف زیر عتاب ہوا بلکہ رہتی دنیا تک دنیا کے لیے نشانہ عبرت بن گیا اس کا یہ کہنا کہ میں تو آگ سے بنا ہوا ہوں میں مٹی سے تخلیق شدہ آدم کو سجدہ کیوں کروں؟ یہ غرور، یہ گردن کا سریا، یہ اونچ نیچ کے سیاپے سید کہتے ہیں ہماری اونچی شان ہے، شیخ کہتے ہیں ہمارا اونچا نام ہے، گجر کہتے ہیں ہم دھرتی کا مان ہیں غرض یہ میں کا شیطانی چکر اس قدر پیچیدہ اور تھکا دینے والا ہے کہ انسانی شعور اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کہ زندگی صرف چند روز کی کہانی ہے اور یہاں کے تاج و تخت، ہیرے جواہرات، مال و زر، محلات و جھونپڑیاں، زمین اور جائیدادیں ادھر ہی کا مال ہیں آنکھ کے بند ہوتے اور سانس کے رکتے ہی ہر شے انسانی روح کے لیے بے معنی ہو جانی ہے مگر پھر بھی یہ آکڑا اور غرور خدا جانے کیوں انسانی سرشت کی رگ و پے میں اتنا سمایا ہوا ہے کہ تخت و تاج کے حکمران تو ایک طرف پنڈ کے معمولی کمی کمین بھی اس میں کی گردان سے روگردانی کر ہی نہیں پاتے بھلے دنیا ادھر سے ادھر ہو جاےیہ میں انسانی سرشت میں کچھ اس بری طرح سے رچی بسی ہوی ہے کہ انسان چاہ کے بھی اس میں کے جھنجھٹ سے نکل نہ پایا ہر کوئی گردن اکڑا کے پاوں پہ پاوں رکھ حقے کی پایپ منہ میں رکھے اپنے علاقے کا مولا جٹ ہی بنا پھرتا ہے. ہماری ایک چاچی جی تھی جلال بیبی بڑی پر جلال تھیں اونچا قد و قامت کھلے ہڈ پیر اور کھلی ڈلی ہی گفت و شنید مجھے یاد ہے کہ بھای کے عقیقے پہ پوری برادری کی دعوت تھی مزیدار طعام اور چہار سو رونق میں بھی جلال بیبی اپنے پر جلال انداز کی نمائش سے باز نہ آی تھیں میری والدہ سے کہنے لگیں بھابھی کھانا ہے تے مزے دا پر جو لذت میرے پکاے ہوے کھانے چ اے تہاڈے کھانے تے اوس لذت دے پاسکوو وی نہیں. لو جی ہو گءی ناں بزتی. جلال بیبی نے اللہ جانے اپنے حسد دی اگ نوں بجھاون دا جتن کیتا یا اپنی میں نوں ٹھند پاون دی کوشش کیتی.
اور معاشرتی بگاڑ اس طرح معاشرے کی جڑیں کاٹنے لگا کہ لوگ گروپ بندیوں میں تہہ در تہہ دفن ہوتے گیے اور اس گروپ بندی کے اندھے کنویں میں سب کو ماسوائے اپنے چہرے کے سب کے چہرے مکروہ، غلیظ اور گند میں لتھڑے ہوے دکھائی دینے لگے. ابھی کل ہی کی بات ہے میں نے اپنی ایک پرانی جاننے والی بظاہر معزز خاتون سے بات چیت کی اور انہیں اپنی نءی کتاب کے بارے بتایا اور یہ بھی پوچھا کہ میڈم کتاب آپ کو کہاں پہنچاوں میڈم گھمنڈ، غرور اور اپنی آکڑ میں ساتویں آسمان سے بھی اوپر تھیں گویا ہویں میں تو صبح تا شام بس ایک ہی دھن میں مگن ہوں. کام، کام اور بس کام، قاید اعظم کا فرمان اور جب میں نے چند دوسرے لوگوں کے بارے میں پوچھا تو میڈم نے کسی پہ کچھ بہتان لگایا اور کسی پہ کچھ کسی کو کوئی گالی دی اورکسی کوکچھ اور اور گویا ہویں ہم اپنے من پسند لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں بس غیر پسندیدہ لوگوں سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں تو کیا اس طرح کی گروہ بندیوں اور گروپ بندیوں سے ہم کوئی اصلاحی کام کر سکتے ہیں ہم ملکی ترقی میں کوئی نمایاں اور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں میرے خیال میں تو ڈیرہ اینٹ کی قبر بنانے والا سواے حسد کے اور کچھ کرنے جوگا رہتا نہیں ہے
حسد کی جو ہنڈیا پکاتا رہا
وہ جلتا رہا بڑ بڑاتا…… رہا
مگر نہ جی ہمیں تو یہ مرض ہے کہ ہم اپنی میں کے جھنڈے کو سر بلند رکھنے کے لیے، دوسروں کی سانسیں بند کرنے کا شوق فرماتے ہی رہتے ہیں.
آخری سانس تو اک روز آ ہی جانی ہے
لوگ کیوں روز میری سانس دبا دیتے ہیں
لوگوں کو جوسب سے بری بیماری فی زمانہ لاحق ہے وہ ان کا بلاوجہ کا دوسروں پہ شک اور حسد ہے جو انھیں اپنی گروپ بندیوں تک محدود رہنے پہ مجبور کر دیتا ہے فی زمانہ مسائل کی ماں ہی خواہ مخواہ کی مقابلہ بازی اور ریس بن چکی ہے لڑکیاں امیر لڑکوں اور لڑکے امیر لڑکیوں کی تلاش میں باولے ہوتے پھر رہے ہیں اور شادی کی عمر خواہشات کے ریلے میں بہہ جاتی ہے ہاتھ سے محنت مشقت کرنے کا رواج تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے ہر کوئی پکی پکای گرما گرم روٹی سے مستفید ہونے کے چکر میں اپنی باسی روٹی سے بھی محروم رہ جاتا ہے. اسے ہی کہتے ہیں
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
جہیز، حق مہر کی فٹیگیں انہی تمام بیہودہ سلسلوں کی چند کڑیاں ہیں. بھلے وقتوں میں شادی بیاہ کے لیے بھی پہلا معیار شرافت ہی ہوتا تھا اب تو معیار شرافت بدل چکے ہیں
معیار شرافت
نہ محبت ہے نہ مروت ہے
دنیا میں راستہ ترقی کا
تیرے کھیسے میں کتنی دولت ہے
اور اس نفسانفسی، کمینگی، بے غیرتی نے صرف خاندانوں اور رشتوں کو ہی پایمال نہیں کیا زندگی کے تمام کارہائے نمایاں پہ َاس چھچھور پن نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں.
شاعر، ادیب، صحافی، ڈاکٹرز، وکیل، ججز، میڈیا پرسنس، ایکٹرز، مزدور، دیہاڑی دار ہر کوئی اپنی پارسائی کے نقارے بجاتا پھرتا ہے اور دوسروں کو زمانے میں رسوا کرنے کا کوی بھی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتا اور اسی جتن میں دانشور انسانوں کو دو ٹکے کاانسان کہہ کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور غرور کی بلندیوں پہ ساتویں آسمان سے بھی اوپر چڑھے ہوے اہل قلم، عام لکھنے والوں کو ساتویں درجے کا لکھاری کہہ کے اپنے من کو شانت کرنے کی سعی ناکام میں مشغول رہتے ہوے زندگی تمام کرتے ہیں، صبح سے شام کرتے ہیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ انسان کی اتنی لفظی تذلیل کرنے والوں کو تھوڑا سا تو شعور تو عطا ہو جاے کہ انہیں کسی کی دل آزاری کرنا ایک بوجھ محسوس ہو.
مندر ڈھا دے
مسجد ڈھا دے
ڈھیندا جو کج ڈھا ڈے
اک بندے دا دل نہ ڈھانیں
دل وچ رب رہیندا
بابا بلھے شاہ
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureen drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International