rki.news
تحریر: فضا عمران
جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی گرد آلود گلیوں میں 32 سالہ شازیہ بی بی ایک لکڑی کی میز کے پیچھے بیٹھی ہیں جس پر رنگ برنگی ہاتھ سے بنی ہوئی ٹوکریاں سجی ہیں۔ تنکے اور دھاگے سے شروع ہونے والا یہ شوق اب ایک کامیاب گھریلو کاروبار میں بدل چکا ہے جو ان کے سارے گھر کا سہارا بن گیا ہے۔
شازیہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں، “میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ہنر سے آمدنی بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن جب میں نے اپنی چیزیں سوشل میڈیا اور مقامی میلوں میں بیچنا شروع کیں، تب احساس ہوا کہ ہم جیسی خواتین بھی بہت کچھ کر سکتی ہیں۔”
پاکستان کے دیہی علاقوں میں شازیہ جیسی کہانیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ کے خیرپور سے خیبر پختونخوا کے سوات تک، خواتین چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہوئے روایات، محدود نقل و حرکت، اور مارکیٹ تک رسائی کی کمی جیسے بڑے چیلنجوں کو عبور کر رہی ہیں۔
دیہی خواتین کاروباری افراد کا عروج
گزشتہ عشرے میں متعدد سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے دیہی علاقوں میں خواتین کی معاشی خود مختاری پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ احساس آمدن پروگرام، اسمیڈا کی ویمن انٹرپرینیورشپ ڈیولپمنٹ اسکیمز، اور کشف فاؤنڈیشن و اخوت جیسے اداروں کے مائیکروفنانس پروگراموں نے خواتین کے لیے گھر بیٹھے اپنا کاروبار شروع کرنا ممکن بنا دیا ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک کی آبادی کا تقریباً 49 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، لیکن رسمی معیشت میں ان کی شمولیت 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم غیر رسمی اور گھریلو سطح کے کاروبار خصوصاً دیہی علاقوں میں خواتین کی محنت خاموشی سے مقامی معیشت کو مضبوط بنا رہی ہے۔
دیہی سندھ میں خواتین کڑھائی یونٹس، اچار سازی، اور دستکاری کا کاروبار چلا رہی ہیں۔ گلگت بلتستان میں خواتین کی کوآپریٹیوز خشک میوہ جات اور جڑی بوٹیوں کی چائے تیار کرکے ملکی و غیر ملکی مارکیٹ تک پہنچا رہی ہیں۔ بلوچستان میں خواتین روایتی قالین بافی اور ہنرکاری کو دوبارہ زندہ کر رہی ہیں۔
اختیارات کی راہ میں رکاوٹیں
ترقی کے باوجود، دیہی خواتین کاروباری افراد کو کئی گہرے مسائل کا سامنا ہے۔ سماجی پابندیاں، محدود تعلیم، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، اور نقل و حرکت کی پابندیاں انہیں پیچھے رکھتی ہیں۔
بہاولپور میں ایک مائیکروفنانس ادارے کی فیلڈ آفیسر، فرزانہ احمد، کہتی ہیں:
“زیادہ تر دیہات کی خواتین شہروں میں جا کر اپنی مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں۔ انہیں بیچوانوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو اکثر انہیں ان کی محنت کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ دیتے ہیں۔”
قرض کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بینک رہن کا مطالبہ کرتے ہیں، جو زیادہ تر دیہی خواتین کے پاس نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ مائیکرو قرضے دستیاب ہونے کے باوجود، ان کے بہتر استعمال کے لیے تربیت کا فقدان موجود ہے۔
ٹیکنالوجی: ایک نیا دروازہ
تاہم پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی رسائی حالات بدل رہی ہے۔ خواتین اب واٹس ایپ گروپس، فیس بک صفحات، اور آن لائن مارکیٹ پلیسز کے ذریعے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہی ہیں۔
صوابی کی عائشہ خان، جو گھر سے آن لائن کپڑوں کا کاروبار چلاتی ہیں، بتاتی ہیں:
“کورونا کے دنوں میں میں نے اپنے ڈیزائنز کی تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کرنا سیکھ لیا۔ اب میں گھر بیٹھے اسلام آباد اور پشاور تک آرڈر بھیجتی ہوں۔”
یو ایس ایڈ، ٹیککارو، اور ویمن ڈیجیٹل لیگ جیسے اداروں کے ڈیجیٹل تربیتی پروگراموں نے بھی دیہی خواتین کو ای کامرس، فوٹوگرافی، اور آن لائن پیمنٹ کے بنیادی طریقے سکھائے ہیں جس سے وہ نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں۔
رویّوں میں تبدیلی، ایک کاروبار کے ساتھ
اس رجحان کا سب سے متاثر کن اثر معاشرتی سطح پر دیکھا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے خواتین اپنے گھر کو مالی سہارا دینے لگی ہیں، خاندانوں کے رویّے بھی بدل رہے ہیں۔ خاوند، باپ اور بھائی اب خواتین کو بوجھ نہیں بلکہ ترقی کے ساتھی کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔
ملتان کی نواحی بستی سے تعلق رکھنے والی پروین اختر بتاتی ہیں:
“پہلے گھر والے مجھے کام کرنے نہیں دیتے تھے۔ لیکن جب میرے کام کی کمائی سے بچوں کی فیسیں ادا ہونے لگیں تو ان کی سوچ بدل گئی۔”
آگے کا راستہ
ماہرین کا خیال ہے کہ دیہی خواتین کے کاروبار کو مضبوط بنا کر پاکستان کی معیشت میں نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر خواتین مردوں کے برابر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں تو پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ممکن ہے۔
اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتی پالیسی، مارکیٹ تک رسائی اور تربیتی پروگراموں کی ضرورت ہے، خاص طور پر وہ جو دیہی خواتین کو براہِ راست فائدہ پہنچائیں۔ مقامی کوآپریٹیوز، ڈیجیٹل خواندگی کے مراکز، اور کمیونٹی سطح کے اسکل سینٹرز طویل المدت ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ایک خاموش انقلاب
مظفرگڑھ میں شازیہ بی بی جب آنے والی نمائش کے لیے ایک اور ٹوکری بُن رہی ہیں تو وہ فخر سے اپنے سفر پر نظر ڈالتی ہیں۔
“ہمارے پاس نہ دفتر ہیں نہ کارخانے،” وہ کہتی ہیں، “لیکن ہمارا کام زندگیوں کو بدل رہا ہے.
پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہزاروں خواتین اسی طرح ایک خاموش انقلاب کی علمبردار ہیں—جو بااختیار ہونے کا مطلب الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے بیان کر رہی ہیں۔
Leave a Reply