rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
خوف اور انسان کی یاری صدیوں پرانی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانی روح کے وجود میں آتے ہی خوف کی جڑوں نے انسانی وجود میں خون کے بہاو کو جاری و ساری رکھنے والی شریانوں پہ
کسی آکٹوپس کی مانند دھاوا بولا اور پھر وہ دن اور آج کا دن، انسان ہزار جتن اور لاکھ واویلے کرنے کے باوجود بھی اس جڑوں میں بیٹھ جانے والے خوف سے اپنے آپ کو نہ ہی آزاد کروا پایا ہے اور نہ ہی آزاد کروا پاے گا.خوف اس دنیا میں پہلی سانس کے ساتھ ہی انسانی بدن کا ہم رکاب ہو جاتا ہے، پہلی چیخ جب نو مولود ماں کے پیٹ سے رہاءی پہ مارتا ہے ٹھیک اسی سمے اسے خوف کے بھوت سے پالا پڑ جاتا ہے اور یہ خوف کا بھوت اتنا مستقل مزاج اور ضد کا پکا ہے کہ پہلی سانس سے آخری سانس تک انسان کا خواہ مخواہ ہی محافظ بن جاتا ہے. ہم خوف کی پناہوں میں زندگی بتاتے ہوے کھاتے پیتے بھی ہیں، ہنستے کھیلتے بھی ہیں، زندگی بھی بتاتے ہیں، بڑے بوڑھے بھی ہوتے ہیں، دکھ سکھ کی پرچھائیوں کی چھپر چھایا تلے ہم دکھ کی بکل مار کے کبھی ہنستے کبھی روتے روتے دنیا کی اسٹیج پہ اپنا کردار ادا کر کے قبر کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں، کتنا کمزور ہے ناں انسان، اور کتنا بے بس ہے اس کل طاقت کے سامنے بالکل ہی بے بس ہے. پریشے کو اچھی طرح یاد تھا جب وہ پورے دو سال دس ماہ کی تھی اور اس کی اماں میٹرنٹی ہوم سے نڈھال، تھکی ہاری کءی صدیوں کی مسافت طے کر کے بیڈ کی چوکھٹ پہ ایک ننھے، گل گوتھنے وجود کو گود میں لیے دودھ پلانے کی کوششوں میں مصروف تھیں تو پریشے نے روتے ہوے اپنی ماں سے التجا کی کہ اس چھوٹے بے بی کو گھر سے باہر پھینک دیں، ماما آپ تو صرف اور صرف میری ماما ہیں، ماما جو دردزہ کی کٹھنایوں کے بعد اور بچے کو جنم دینے جیسی اذیت کے بعد سنبھلنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں نے ڈبڈبای ہوی آنکھوں سے اپنی پیاری بیٹی پریشے کو دیکھا اور پریشے کے خوف کو ماں کی روی روی آنکھیں دیکھ کر پتنگے لگ گیے، وہ پریشے جو پورے گھر میں وانگ تتلی کے چہچہاتی پھرتی تھی، والدین اور دادا دادی کی بے حساب محبتوں کی اکیلی ہی حقدار تھی، صمد کے آتے ہی، پریشے اچانک ہی کھڈے لین لگا دی گءی تھی، رو دھو کے تنہائی کے خوف کی پناہوں میں پناہ لیتے ہوئے پریشے نے پڑھائی کے دامن میں پناہ لی تھی اس نے پھر اتنی پڑھای کی کہ وہ پھر پڑھائی کرنے والوں میں ٹاپ پہ ہی رہی، گولڈ میڈلسٹ پریشے نے والدین کی محبت میں بٹوارا ہونے پہ ماں باپ اور بھای کی محبت کو اپنی تعلیمی جدوجہد پہ یوں وار دیا کہ اسے سب کچھ بھول گیا، یاد رہی تو صرف پڑھائی کی دوڑ میں شامل ہونا، گولڈ میڈلسٹ پریشے اپنے زمانے کی بہت بڑی سکن اسپیشلسٹ ماں باپ کی گود سے نکالی ہوی، محبت کی تلاش میں سر گرداں پریشے سدا ہی دھتکاری گءی،ساری عمر پڑھای کی دوڑ میں آگے سے آگے نکلنے کے لیے ناکامی کے خوف سے بچنے کے لیے ہمیشہ ہی ایک ان دیکھے خوف کے حصار میں رہی، پھر اس کی شادی ہوی، شادی سے پہلے پریشے کو یہ خوف راتوں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی تھا کہ اس کا شوہر اسے قبول بھی کرے گا یا نہیں؟ اس کے سسرالیوں کا سلوک اس کے ساتھ کیسا ہو گا؟ خیر وہ کہتے ہیں ناں کہ مرے ہوے کو مارو سو درے، تو پریشے کے خوف میں ایک مستقل اضافہ اس کے شوہر نے شادی کی پہلی ہی رات یہ کہہ کر کر دیا کہ
میرا منظور نظر تو نہیں.
کوی دوسرا، کوی اور ہے
ان چاہے جانے کے خوف کے ساتھ ساتھ جب بے اولادی کا خوف بھی پریشے کی زندگی میں شامل ہوا اور شادی کے دس سال بعد شوہر نے بے اولادی کو الزام بنا کر محبوبہ کو دوسری بیوی بنا کر پریشے کو دھتکاری ہوی بیوی کے خوف میں مبتلا کر چھوڑا اور پھر اگلے ہی سال جب پریشے کو انتڑیوں کا کینسر تشخیص ہوا، تو پریشے بیماری اور موت کے خوف سے لڑائی میں مصروف ہو گءی، تو غور فرمائیے گا ہم سارے ہی کسی نہ کسی قسم کے خوف کی دوڑ سے بندھے ہوے ہیں اور ہم اس خوف سے نکلنے کے جتن کر کر کے ہلکان ہوتے رہتے ہیں لیکن اس جتن میں ہم ہی ہارتے رہے ہیں اور سدا ہارتے رہیں گے. خوف اور سانسوں کا سنگم بڑا ہی اٹوٹ اور سدا بہار ہے.
رداے خوف اوڑھ کر سوے
کبھی ہنسے تو ہم کبھی روے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply