rki.news
قرض میں دبی ہوئی زندگی
تحریر ۔۔۔۔۔ نواز ساجد نواز
آج کا انسان جس معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس کی سب سے نمایاں تصویر قرض میں دبی ہوئی زندگی ہے۔ معاشی بے یقینی اور روزگار کے مواقع کی کمی نے فرد کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض کا سہارا لے۔ پہلا قرض اترنے سے پہلے ہی دوسرا قرض سر پر سوار ہو جاتا ہے، اور یہ سلسلہ ایک نہ ختم ہونے والی زنجیر کی مانند ہے۔ جس شخص کے پاس مستقل روزگار نہیں یا جو محنت مزدوری کر کے بھی روزانہ کی بنیاد پر صرف روٹی کپڑا ہی بمشکل کما پاتا ہے، اس کے لیے قرض کی قسطیں چکانا محض خواب بن جاتی ہیں۔ یوں وہ مسلسل ذہنی دباؤ اور سماجی شرمندگی کا شکار ہوتا ہے۔ قرض خواہ کی آواز میں چھپی تلخی اور سماج کی طنزیہ نگاہیں اس کے لیے مزید عذاب بن جاتی ہیں۔ قرض اگر وقتی سہولت دیتا ہے تو طویل مدتی غلامی کی زنجیر بھی پہنا دیتا ہے اور یہی آج کے انسان کی سب سے بڑی اذیت ہے۔
بے روزگاری نے اس بحران کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب نوجوان اپنے خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے بجائے بیروزگاری کی دیوار سے ٹکراتے ہیں تو وہ یا تو چھوٹے موٹے قرض لیتے ہیں یا گھریلو ذمہ داریوں کے دباؤ میں بوجھل ہو جاتے ہیں۔ محنت مزدوری کرنے والے بھی اس دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے کیوں کہ جتنا وہ کما پاتے ہیں، وہ روزانہ کے کھانے پینے اور معمولی اخراجات پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں گھر کے بڑے اخراجات، شادی بیاہ،رہائش کا ماہانہ کرایہ یا بچوں کی تعلیم و صحت کے اخراجات قرض کے بغیر پورے ہونا ناممکن نظر آتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے جو ایک مستقل قرض خواہانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس غلامی سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
قرض کے بوجھ تلے زندگی گزارنے والوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش اس وقت آتی ہے جب بچے بیمار پڑ جائیں۔ علاج کی سہولت عام انسان کے لیے کسی خواب سے کم نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو وہ اتنی غیر معیاری یا محدود ہے کہ مریض کو بالآخر نجی اسپتالوں کے در پر جانا ہی پڑتا ہے لیکن نجی اسپتالوں کے اخراجات ایک عام مزدور یا ملازم کی دسترس سے باہر ہیں۔ ایسے حالات میں والدین اپنے بچوں کو علاج سے محروم رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو کہ ایک انتہائی تکلیف دہ کیفیت ہے۔ والدین کے دل پر وہ کرب اور مایوسی اترتی ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اور یوں قرض کی زنجیر اور بیماری کا عذاب مل کر زندگی کو مزید تنگ کر دیتے ہیں۔
قرض کی وجہ سے فرد صرف معاشی مشکلات کا شکار نہیں رہتا بل کہ سماجی مسائل بھی اس کے گرد حصار بنا لیتے ہیں۔ جب ایک شخص اپنے گھر کا نظام سنبھالنے میں ناکام رہتا ہے تو رشتہ دار اور سماجی تعلقات بھی بوجھ بننے لگتے ہیں۔ قرض لینے والا شخص محفلوں میں جانے سے کتراتا ہے کیوں کہ اسے اپنی مالی حیثیت اور ادھار کے تذکرے سے شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے۔ سماج میں عزت اور مقام کا دارومدار اکثر دولت اور معاشی خوشحالی پر رکھا جاتا ہے، اس لیے قرض دار انسان کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یوں قرض نہ صرف جیب کو خالی کرتا ہے بل کہ سماجی رشتوں کو بھی کھوکھلا کر دیتا ہے۔
قرض کی زنجیر نے زندگی کو اس حد تک مشکل بنا دیا ہے کہ فرد اپنی سانسوں کو بھی مقروض سمجھنے لگا ہے۔ آج کا انسان دن رات یہ سوچتا رہتا ہے کہ کب اور کیسے قرض اترے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ قرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یہ کیفیت زندگی کو اس قدر تنگ کر دیتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے جیسے اس کا جینا بے معنی ہو گیا ہے۔ قرض کی وصولی کے دباؤ، قسطوں کی تاریخ اور روزمرہ اخراجات کے بوجھ نے ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر دن نئی آزمائش کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ہر رات پچھلے دن کی ناکامی کا ماتم بن کر ڈھلتی ہے۔
قرض میں دبی ہوئی زندگی دراصل ایک ایسا دائرہ ہے جس سے نکلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سماجی ڈھانچے میں امیر اور غریب کے فرق نے اس دائرے کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ امیر طبقہ قرض لے کر سرمایہ کاری کرتا ہے اور مزید منافع کماتا ہے جب کہ غریب قرض لے کر روٹی اور علاج خریدتا ہے اور پھر تاحیات قسطوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ یہ نظامی نابرابری اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ معاشرتی اور معاشی ڈھانچہ غریب کے حق میں انصاف فراہم نہیں کرتا۔ قرض دار کے لیے زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے جس میں جیت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
آج کے حالات میں قرض میں دبی ہوئی زندگی کسی آخری سانس کی مانند ہے جیسے انسان کا دم گھٹتا جا رہا ہو۔ مہنگائی، بے روزگاری، علاج اور تعلیم کی سہولیات کی کمی، سماجی دباؤ اور قرض کی قسطوں نے زندگی کو ایک اذیت ناک سفر بنا دیا ہے۔ انسان جینے کے بجائے بس زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے خوابوں، خواہشوں اور سکون کو قرض کی قسطوں میں دفن کر دیتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف فرد کی بل کہ پورے معاشرے کی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے، کیونکہ قرض میں دبا ہوا انسان کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ اجتماعی طور پر ایک ایسے بحران میں پھنس چکا ہے جہاں زندگی سانس لینے کے باوجود دم توڑتی محسوس ہوتی ہے۔
Leave a Reply