Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“سائنسی حقائق “کا حقائق شناس امتیاز احمد انصاری

Uncategorized , / Thursday, November 20th, 2025

rki.news

نسیم اشک ،جگتدل،24 پرگنہ (شمال), مغربی بنگال

آج کی برق رفتار دنیا میں زمانے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ،قدم سے قدم اور نظر سے نظر ملا کر چلنے کے لئے جدید دور کے علوم سے بہرور ہونا نہایت ضروری ہے اور جدید علوم کی ماں سائنس ہے، بغیر سائنس کی مدد کے آج کے دور کا انسان زندگی کا ایک دن بھی گزارنے سے قاصر ہے لہذا ایسی صورتحال میں نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے عہد کے لوگ اس عہد کی تعلیم سے روشناس ہوں اور دوسروں کو بھی اس سے روشناس کرانے کی سعی کرے۔اللہ کا حسان عظیم ہے کہ ہم اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتے ہیں اور اس پر نعمت عظیم یہ کہ ہم ایک ایسے نبی اور ایسی کتاب کے پیروکار ہیں جو لاثانی ہیں۔پوری کائنات کے ہادی نے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا تاکہ قوم ہر دور کے علم سے استفادہ کرے اور زمانے پر اپنے اثرات مرتب کرسکے نیز زندگی کے کسی موڑ پر اپنی کم مائیگی پر شرمندہ نہ ہو۔کتاب اللہ نے انسان کی ہدایت کے تمام رموز عیاں کردی تاکہ انسان اپنے وجود کے ساتھ دنیا کی تمام تر حقیقتوں کو بے نقاب کرے اور ذات انسان کو اعلٰی مقام تک لے جائے۔زمانہ چشم دید گواہ ہے کہ قرآن کریم نے سائنس کو ہزاروں سال پہلے ہی دلوں میں اتار دیا تھا۔آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں جب ہم ان آیتوں کو دیکھتے ہیں تو عقل حیران ہو جاتی ہے کہ سائنس مذہب اسلام کے کس قدر قریب ہے۔
عصر حاضر کے نونہالوں کے ہمراہ پختہ عمر کے لوگ بھی سائنس کے حقائق سے بہت کم واقف ہیں اور اس کے کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ان موضوعات پر عمدہ کتابوں کی کمی اور دلچسپ انداز تخاطب ہیں۔اول تو بچوں کے ادب پر بیشتر شعراء و ادباء کام کرتے شرماتے ہیں اور دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کتابوں کے قارئین بمشکل ہی ملتے ہیں قارئین کا مسئلہ تو ادب کا ہی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔کتابوں سے دوری نے سبھی کے ہاتھوں میں الہ دین کا چراغ پکڑا دیا ہے جو پلک جھپکتے مناظر بدل دیتا ہے پھر بھی کتابوں کی اپنی ایک دنیا ہے،کتابوں کو چھونے کا،ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا،تکئے کے نیچے رکھ کر سونے کا اور پڑھنے کے ڈیسک پر سجانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔”سائنسی حقائق “کے خالق امتیاز احمد انصاری بھی انہیں جیالوں میں سے ہیں جنہوں نے ادب اطفال کو اپنا ادبی میدان چنا ہے۔امتیاز احمد انصاری طویل مدت سے نئے اذہان کی آبیاری میں مصروف ہیں۔درس و تدریس کے علاوہ ادبی ،سماجی و ثقافتی مجلسوں میں بھی ان کے نام کی دھوم ہے۔جتنی سادگی ، شائستگی اور شگفتگی ان کی شخصیت میں ہیں’ ان کی تحاریر میں بھی ان خصوصیات کا صاف و شفاف عکس دکھائی دیتا ہے۔ ادب اطفال میں دلچسپ سائنسی موضوعات یقیناً اہم کام ہے اور یہ اہم کام امتیاز انصاری نے بحسن وخوبی انجام دیا ہے’ جس کے لئے وہ تعریف کے مستحق ہیں۔پیش نظر مجموعہ ان کا دوسرا مجموعہ ہے اس کے قبل “حیرت انگیز دلچسپ سچائیاں” کو ادبی حلقے میں خاطر خواہ پزیرائی ملی اور ادب اطفال کے در پر ایک دستک کی آواز گونجی اب یہ دوسرا مجموعہ پورے شباب کے ساتھ حاضر ہے۔مصنف نے وقت کی پکار کو سمجھتے ہوئے ایسی کتاب کو منظر عام پر لایا ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔مجموعے میں 21 مضامین شامل ہیں جو مختلف موضوعات پر ہیں یہ مجموعہ سائنسی معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کا لطف بھی دوبالا کرتا ہے۔مجموعے کا پہلا مضمون گردہ ۔خون کا واشنگ مشین بہت معلوماتی اور کارآمد مضمون ہے۔ اس مضمون سے گردے کی انسانی جسم میں رول پر بہت اہم معلومات فراہم کی گئی ہے جیسے کردے کی بناوٹ،کام اور اس کو صحتمند رکھنے کے طریقے اور اس میں خرابی کے علامات وغیرہ۔یہ مضمون طالب علموں کے ساتھ اردو کے قارئین کو گردے کے تعلق سے G.K کے بہت سارے سوالات کا حل بھی بتاتا ہے۔
“قیامت اور سائنس ” مذہب اور سائنس کے نظریات کا امتزاج ہے۔مصنف نے اس مضمون میں قیامت کے آثار کیا ہوں گے کے تعلق سے مذہبی اور سائنسی دونوں نظریات پیش کیا ہے۔احادیث کی روشنی میں قیامت کا واقع ہونے کے حوالے سے کئی احادیث پیش کی ہے جس سے بچے اور عمر رسیدہ بیک وقت استفادہ کرسکتے ہیں۔”آنکھ” انسانی جسم کی خوبصورتی کا مرکز آنکھیں ہوتی ہیں یہ کسی شخص کو پرکشش بناتی ہیں اور دنیا کی رنگینیاں ان کے دم سے باقی ہیں ورنہ سترنگی دنیا کی خوبصورتی کس کام کی ہوتی۔مصنف نے اس مضمون میں آنکھوں کے تعلق سے دلچسپ حقائق پیش کیا ہے جو انتہائی کارآمد ہیں۔آنکھیں کتنی حساس ہوتی ہیں مصنف اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
“انسان کی آنکھیں بڑی سوجھ بوجھ رکھتی ہیں ،کبھی ایسے کے سامنے نہیں بہتی جو اس کا ہمدرد نہ ہو”
“کھجور ” کی اہمیت ہمارے مذہب میں بھی بیان کی گئی ہے اور سائنس نے بھی اس کی طبی فوائد کا اعتراف کیا ہے۔مصنف نے اس مضمون میں کھجور کی قسمیں، طبی فائدے اور اس جڑی اہم جانکاریاں اس پر لطف طریقے سے بیان کی ہے گویا معلوم ہوتا ہے کوئی کہانی کہہ رہا ہوں۔یہی طرز بیان مصنف کے ان مضامیں کو اختصاص عطا کرتا ہے۔قاری کو اپنی تحریر کے حصار میں رکھنا کسی بھی محرر کی بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے۔
اس مجموعے میں ایک مضمون “کیا اندھے بھی خواب دیکھتی ہیں” بڑا دلچسپ انکشاف ہے۔اس مضمون میں مصنف نے ماہر نفسیات فرائڈ کا نظریہ پیش کیا ہے جو یوں ہے۔
“خواب انسان کی تحت الشعوری خواہشات کا مظہر ہے۔انسان میں جو جذبات پوشیدہ طور پر پرورش پاتے ہیں سوتے وقت وہی تمام خیالات غیر شعوری طور پر خواب کی صورت نظر اتے ہیں.”
مصنف نے خواب کے نظریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نابینا لوگوں کی خواب کے متعلق تحقیق کے حوالے سے اپنی رائے قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ “پیدائشی طور پر نابینا افراد کے خواب میں آوازیں اور احساسات وجذبات عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ مظبوط ہوتے ہیں۔حادثاتی طور پر اپنی بینائی کھو دینے والے افراد کے خواب بہت حد تک عام انسانوں کے خواب کی طرح ہوتے ہیں۔”
مضمون کے اختتام پر دلچسپ حقائق نے مضمون کو اور مربوط بنادیا ہے اور اس کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔
اس مجموعے کے موضوعات اس قدر پر کشش ہیں کہ نظر پڑتے ہی مضمون کا پڑھنا مناسب معلوم ہوتا ہے،یہ اس مجموعے کے موضوعات کا انتخاب اور انداز بیان کی لطافت و ندرت کا ثمر ہے۔اس مجموعے کی ورک گردانی کرتے ہوئے ہم جیسے ہی آگے بڑھتے ہیں ایک مضمون بعنوان “روح اور اس کی حقیقت” پر نظریں ٹھہر جاتی ہیں۔اس مضمون میں بھی مذہب اسلام اور سائنسی نقطہ نظرکی آمیزش ملتی ہے جو واقعی قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔روح کے تعلق سے ایسی حقیقتوں سے بیشتر قارئین کی آگاہی نہیں ہوں گی۔دوسرے مضامین کی طرح یہ مضمون بھی بے حد معلوماتی ہے۔مصنف نے جانوروں، پھلوں ،جسم کے اعضاء ،پرندے،مچھلی،کیڑے وغیرہ موضوعات کو اپنے مجموعے میں شامل کرکے قاری کے Taste of reading کا خیال رکھا ہے اور مضامین کی دلچسپی برقرار رکھنی کی کوشش کی ہے۔کیلا ایک صحت مند غذا ہے۔توانائی کا بہترین ذریعہ ہے۔مصنف نے کیلے کے متعلق سائنسی حقائق کو دلچسپ پیرائے میں پیش کیا ہے۔کیلے کے چھلکے کے کئی استعمال بتائے ہیں جو کیلے کے چھلکے تک کی اہمیت بتاتے ہیں اور ہمیں بارہا احساس دلاتے ہیں کہ “تو تم اپنے رب کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔روز بہت روز بڑھتی آلودگی نے انسانی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ایسی صورتحال میں شجر کاری
واحد حل ہے۔شجر کاری دنیا کی خوبصورتی کو بچانے میں کافی کارآمد ہے۔مصنف نے مذہب اسلام میں شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور یہ باور کروایا ہے کہ مذہب اسلام نے نہ صرف انسان کی زندگی کو صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کیا ہے بلکہ کائنات کے تمام تر معاملات میں انسان کو فلاح کی ہدایت کرتا ہے قدرت کو بچانے کے لئے اسلام نے شجر کاری پر زور دیا ہے۔اسلام میں شجر کاری کی اہمیت کا اندازہ ہمارے نبی کے اس قول سے کیا جاسکتا ہے جو مصنف نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے۔
“قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کو شجر کاری کا موقع ملے تو وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دے.”
“باتیں کچھ بینک کی ” کے تحت بینکنگ سسٹم کی اہم جانکاریاں حاصل ہوتی ہیں۔کچھ تو ایسی باتیں جاننے کو ملتی ہیں جو کسی ایک جگہ پر ملنی مشکل ہے مگر مصنف نے ان تمام معلومات کو یکجا کرکے بہت آسانی پیدا کردی ہے۔”طوطا ۔۔۔۔ایک ذہین پرندہ ” میں طوطے کے تعلق سے پہلی بار جان کر حیران ہوا کہ دنیا کا سب سے چھوٹا طوطا pygmy ہے جس کی لمبائی صرف 8 سینٹی میٹر ہوتی ہے جو انسانی انگلی کے برابر ہوتی ہے۔”بال” ،”ڈولفن”,”شہد کی مکھی”اور “دانت “جیسے خشک موضوعات کو بھی پیشکش اتنی پرکشش ہے کہ قاری مزے لے کر صفحے در صفحے بغیر کسی اکتاہٹ کے پڑھتا چلا جاتا ہے.
“مسلم نوبل انعام یافتگان ” میں 13 مسلم نوبل انعام یافتگان کا تذکرہ ملتا ہے جس میں ان کے ان کاموں کا بھی مختصر ذکر ملتا ہے جن کے عوض انہیں یہ انعام ملا ہے۔اس طرح کے مضامین طالب علموں کے اندر نمایاں خدمات انجام دینی کی ترغیب دیتے ہیں۔اس ضمن میں مصنف کے مقصد تحریر کی طرف رخ کرتے ہیں جہاں وہ رقمطراز ہیں۔
“بحیثیت قلمکار میری شروع سے ہی یہی کوشش رہی کہ نئی نسل کی ذہنی آبیاری کرتے ہوئے ان میں سوچ و فکر اور تجربہ و مشاہدہ کی عادت ڈالی جاۓ تاکہ انھیں قدرت کے ذریعہ عطا کردہ تمام نعمتوں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکے۔اس کے علاوہ اپنے اس پاس پائی جانے والی مخلوق خدا کے ماحول کے اعتبار سے مخصوص جسمانی ساخت، بناوٹ اور ان کی انفرادی خصوصیات پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکے۔اس کا ذہن اس طرح کے سوالات کرنے پر مجبور ہوجائے کہ قرآن مقدس میں موجود 600 سے زائد آیتوں میں سے سو سے زائد آیتیں سائنسی قوانین اور اس کے اصول و ضوابط کی جانب اشارہ کرتی ہیں”
“پلاسٹک سرجری ” کا رواج ان دنوں دنیا میں زور پکڑا ہوا ہے ہر امیر ترین شخص اپنی عمر کو مات دینے کے لئے پلاسٹک سرجری کا سہارا گے رہے ہیں۔اس کا استعمال حادثے میں شکار لوگوں کی شکل و شباہت کو ٹھیک کرنے کے لئے بھی ہوتا ہے۔کہیں کہیں یہ علاج مفت بھی ہے جو بہت بڑی خدمت ہے۔
“شہد کی مکھی اور شہد” میں انگبین کی طبی اور مذہبی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،احادیث کی روشنی میں اس کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔مضمون “موسمی پھل ” کے تحت موسم گرما اور موسم سرما کے پھلوں کے تذکرے کے ساتھ ان کے فائدے بتائے گئے ہیں۔ عصر رواں ترقی کے ساتھ ساتھ نئی نئی بیماریوں کا بھی استقبال کررہا ہے۔مصنف نے بخار کو بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔انہوں نے بخار سے خوفزدہ ہونے سے بچنے اور ڈاکٹر سے رجوع کرکے صحیح علاج کا مشورہ بھی دیا ہے۔
مضامین کے آخر میں چند حیرت انگیز حقائق اور تصاویر نے کتاب کی خوبصورتی میں مذید اضافہ کیا ہے۔زبان و بیان کی سلاست اور شگفتگی قابل ستائش ہیں۔مجموعے کا سرورق بہت خوبصورت ہے ۔طباعت اور بانیڈنگ بھی خوب ہے۔128 صفحات پر مشتمل امتیاز احمد انصاری کا یہ مجموعہ ادب اطفال میں قابل قدر ہے جس لگن و محنت کا مظاہرہ انہوں نے اپنے اس مجموعے میں کیا ہے، اس کی پزیرائی یقیناً ہونی چاہئے۔مجھے یقین ہے ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی کافی پزیرائی ہوگی۔
امتیاز احمد انصاری کو اس مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں ان کا قلمی سفر یونہی جاری رہے۔

نسیم اشک
جگتدل,24 پرگنہ (شمال),مغربی بنگال


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International