rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
زندگی چونکہ ایک مقدس امانت ہے۔اس کے مسافر بالخصوص نو جوان نسل تو جدت پسندی کے لبادے میں سماجی زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔نٸی روایات اور عادات نے تو نوجوان نسل کو اس قدر اخلاقی اقدار سے بیگانہ کر دیا ہے کہ ادب و احترام کے پیمانے ٹوٹ کر رہ گۓ ہیں۔اس عہد میں سوشل میڈیا کے طوفان اور گیمز کے عادی نوجوان تو تخلیقی صلاحیتوں سے بالکل خالی ہیں۔اپنے من کی دنیا میں اس قور محو کہ جہاں کی کوئی خبر نہیں۔اس قدر جنون میں مبتلا کہ زندگی کے سفر کا کوئی احساس نہیں۔خواہشات کی غلامی وطیرہ ہو تو نئی سحر زندگی میں کیوں کر دستک دے سکتی ہے۔حقاٸق کے ادراک سے اس قدر قاصر کہ بھٹکی ہوئی راہوں کے اندھیروں میں گم ہو کر رہ جانا کوئی انوکھی بات نہیں۔زندگی تو خوبصورتی کی علامت تبھی ہوتی ہے جب ایک مثال اور نمونہ موجود ہو۔زندگی کے روپ میں خوبصورتی کی تلاش کے خواب دیکھنا محض ایک عادت ہو کر رہ گٸی ہے۔کسی قسم کی کوئی تحریک اور جذبہ موجود نہیں۔دولت جمع کرنے کا جنون اور عیش و عشرت کی لت پڑنے سے تو نوجوان نسل زندگی کے حقیقی راز کو فراموش کر بیٹھی ہے۔نیا زمانہ ٬نۓ صبح و شام پیدا کرنے کی تڑپ نہیں ہے۔خواہشات کے مہیب اندھیروں میں زندہ رہنا کامیابی تصور کرنا کوئی عقل مندی کی دلیل نہیں۔نوجوان نسل تو اس قدر راہ حق سے بیگانگی کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کا پاس تک نہیں۔زندگی کا احساس عاجزی اور انکساری پر ہو تو کامیابی دستک دیتی ہے۔غرور اور تکبر سے زندہ رہنا تو سب سے بڑی حماقت ہے۔لیکن نجانے کیوں؟عصر نو کے نوجوان اس درس کو بھلا بیٹھے ہیں۔بقول شاعر:-
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
زندگی کے سفر میں تو محنت درکار ہوتی ہے۔جس سے نوجوان نسل جی چراتی ہے۔ایک اور اہم بات اناپرستی کے خول سے باہر نکل کر زندہ رہنے کا ڈھنگ اپنانا انسان کے لیے کامیابی کی امید پیدا کر سکتا ہے۔اس عہد میں اسلامی تہذیب و تمدن سے بے نیازی اور جدت پسندی کے جنون میں گرفتار نٸی نسل نجانے کیوں یہ سبق بھول رہی ہے کہ بقول شاعر:-
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
حقیقی معنوں میں جائزہ لیں تو نوجوان نسل اناپرستی کے خول میں گرفتار خواہشات پر مشتمل زندگی بسر کرنے پر کوشاں نظر آتی ہے۔اس وقت جائزہ لیا جاۓ تو نوجوان نسل میں نہ آداب رفاقت کا احساس اور نہ آداب محبت سے کوئی سروکار ہے۔خود سری کی راہوں میں سفر کرنے کا جنون انوکھا سا روپ ہے۔یہ بات تو دل کی گہرائیوں سے جان لینی چاہیے کہ جس زمین میں فصل اچھی پیدا ہوتی ہے وہ زرخیز ہوتی ہے اور بنجر زمین میں تو خاردار جھاڑیاں ہی پیدا ہوتی ہیں۔جن دلوں میں ایک عظیم قوم بن کر زندہ رہنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے وہی ترقی کی راہیں طے کرتی ہیں۔انسانیت کا وقار تو محنت اور جدوجہد کے فلسفہ میں پنہاں ہے۔تعلیم کی روشنی سے تلخیوں کے کھیت میں میٹھے ثمر پیدا ہوتے ہیں۔ہمدردی اور مساوات سے آگ کے صحرا میں چاہت کے پھول پیدا ہوتے ہیں۔شعور کی لو سے اندھیروں میں صبح درخشاں طلوع ہوتی ہے۔علم کی دولت سے فہم و فراست کے دروازے کھلتے ہیں۔اور عمل کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔سماج کی رونق تو اچھے رویے ہوتے ہیں۔اس لیے نوجوان نسل میں ہمت اور محنت کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
Leave a Reply