تازہ ترین / Latest
  Friday, January 10th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

سماج میں مثل چراغ زندہ رہنا۔۔۔

Articles , Snippets , / Tuesday, December 31st, 2024

تحریر فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین !۔ بزم کائنات کی خوبصورتی کس قدر دلکش اور جاذب نظر۔ہر ایک چیز میں نیا رنگ اور انداز ہے۔انسان تو طبعی طور پر مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے۔سماج کی خوبی تو یہی ہوتی ہے کہ تمام افراد مل جل کر محبت سے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں بقول شاعر
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس شعر کے تناظر میں فرد کی اہمیت کتنی اہم ہے اور زندگی کے دریچوں میں دلکشی کتنی اہم۔اس کا اندازہ سماج میں پائی جانے والی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔ معاشرے اور سماج میں پائی جانے والی بے کیفیت میں اگر بے چینی,اضطراب اور انتشار زدہ ماحول محسوس ہو تو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک جاندار دل کے مالک کس قدر انسانیت سے محبت کے علمبردار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں مثل چراغ زندہ رہنے کی سعی بلیغ کی جاۓ۔ ایک دوسرے کا احساس کرنے سے چاہتوں کے پھول کھلتے ہیں۔ عصر نو تقاضے بھی یہی ہیں کہ فتنہ پرور فضا سے نجات کے لیے الفت اور محبت کے دیوان مرتب کیے جائیں۔قلم کار حسن تحریر سے گلشن زیست کی زینت میں اضافہ کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ سماج میں اطمینان اور سکون کے پھولوں کی مہک سے بھائی چارہ اور اتحاد واتفاق کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشرہ اور سماج خود غرضی اور نفرت کی آگ میں جلتا محسوس ہوتا ہے۔ایک اور شعر قابل غور ہے۔بقول شاعر:۔
اخلاص کا سورج ہوں ,وفاؤں کا اجالا
اک صبح درخشاں ہوں مجھے بھول نہ جانا
زندگی سے پیار ہی تو امن کی پکار ہے۔اس ضمن میں سماجی اور ادبی دنیا کے دستو ر اور اصولوں کے مطابق زندگی کے خوبصورت گلستان میں اخلاص کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔سراۓ محبت بسانے سے ہی تو قربت اور پاکیزہ زندگی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔تاریخ کے اوراق کے مطالعہ سے یہ بات ایک حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جن ہستیوں نے اخلاص کی راہ اپنائی اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ وہ وفاؤں کا پیکر بن کر زندہ رہے اور دنیا ان کی عظمت کو آج بھی مثال سمجھتی ہے۔معلم انسانیت کی زندگی تو ایک چراغ سے بھی زیادہ روشن اور ضیا کا مرقع کی حیثیت سے آج بھی سماج میں مثل نمونہ موجود ہے۔اور آپ کی تقلید کرنے والی ہستیوں کی مثل بھی تو ایسی ہی ہے۔
بقول شاعر:-
”جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں“
زندگی کی شاہراہ پر چلنے میں جب انسان منشور انسانیت پر عمل کرتے سفر طے کرتا ہے تو اس کی روح کو تسکین ملتی ہے۔ہر قسم کا ماحول ہمیشہ اصولوں پر عمل کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔اور ہر فرد کو بمثل چراغ زندہ رہنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
۔معاشرے اور سماج میں ایسے ہی خوبصورت نگینوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کی چمک سے اندھیری راتوں میں اجالا ہوتا ہو۔اس ضمن میں یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا مرتبہ تو بہت بلند ہے۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ وہ معاشرہ کتنا مظلوم تصور ہوتا ہے جہاں اندھیروں کا تسلط ہو ۔ظلم عام ہو۔انسان مقام آدمیت بھول جاۓ۔ہوس پرستی اور دولت جمع کرنے کا رجحان غالب ہو۔نفرتوں کے چراغ جلتے ہوں۔ ہمدردی محض ایک خواب اور خیال تک محدود ہو ۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ زندگی تو وہی کارآمد ہوتی ہے جس میں مٹھاس اور انکساری ہو اور سادگی کا اسلوب پایا جاۓ۔نوک زبان سے ایسے کلمات ادا ہوں جن سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔کسی کی حوصلہ شکنی بھی نہ ہو اس ضمن میں زندگی کا تقاضا یہی ہے کہ قوت برداشت اور حوصلہ سے زندہ رہنے کو ترجیح دی جاۓ۔مایوسیوں کے ساۓ میں روشن امید بن کر زندگی بسر کی جاۓ۔زندگی پرسکون اور خوشگوار بنانے کے
فقط احساس کے بیدار کرنے کی ہے۔تعلیم ہی ایسی قوت ہے جس سے سینوں میں روشنی اور مشعل روشن ہوتی ہے۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ دنیا کا سفر اچھی امید سے ہی طے کرنا چاہیے۔ایسے دل جن میں چاہت اور محبت کی چاندنی مسکراتی ہو وہی دل آباد ہوتے ہیں۔ امید اور آس کے چراغ بھی روشن ہونے اور حسن اخلاق سے پیش آنے سے زندگی میں عجب کیفیت پیدا ہو تی ہے۔ہمدردی٬ ,اخوت,رواداری،مساوات سے چمنستان زندگی میں رونق دوبالا ہوتی ہے۔ایک اور پہلو جس کا معاشرے میں پاس نہیں کیا جاتایعنی عزت نفس۔معاشرے اور سماج میں ہر فرد کی عزت عزیز ہوتی ہے۔اس لیے جو افراد سماج میں دوسروں کی عزت نفس کا احساس کرتے ہیں وہی درخشانی سے سماج کی تاریکیوں کا خاتمہ بھی کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔اچھے رویے خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں۔اس کائنات کی خوبصورتی کا راز تو انسان کے حسن اخلاق اور طرز زندگی کے اصول ہیں جن سے سے گلشن زندگی کی رونق حیات کا خوبصورت تسلسل قائم ہے۔وہ زندگی کیا جس میں نفرت اور حقارت کے شعلے ہوں اور تعصبات کا رجحان غالب ہو۔اسلام تو اس بات کا درس دیتا ہے۔مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اس کے مطابق تو اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے۔شورش زدہ ماحول میں زندگی ایک عذاب سی محسوس ہوتی ہے۔ عزت و احترام اور صلہ رحمی کی خوبی سے سماج کا حسن برقرار رہتا ہے۔ہر فرد اخلاص سے زندگی کے گلستان کی خوبصورتی اور دلکشی کے لیے کردار ادا کرے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاؤں ڈنگ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International