rki.news
تحریر؛ ڈاکٹر منور احمد کنڈے
اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب اندلس (موجودہ اسپین و پرتگال) کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ سرزمین تقریباً آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی علمی، تہذیبی اور سیاسی مرکز رہی۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس عظیم دور کو زوال بھی آیا۔
بعض مؤرخین اور ناقدین کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ :
کیا سپین میں مسلمانوں نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر ظلم کر کے زبردستی اسلام قبول کروایا تھا ؟
ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
711ء میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے عہد میں طارق بن زیاد نے جبل الطارق عبور کر کے اندلس کی سرزمین میں قدم رکھا۔ اس وقت مقامی عیسائی وِزگَوتھ (Visigoth) بادشاہت اندرونی اختلافات، بدعنوانی، اور عوامی ناراضگی کا شکار تھی۔ بہت سے مقامی لوگوں نے مسلمانوں کو اپنا نجات دہندہ تصور کیا، خاص طور پر یہودی اقلیت نے، جومدت سے عیسائی حکمرانوں کے ظلم کا شکار تھی۔
یہ ایک عام مغالطہ ہے کہ مسلمانوں نے سپین میں زبردستی اسلام پھیلایا۔ تاریخی شواہد اس کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں:
اسلامی شریعت کے مطابق اہلِ کتاب (یہودی و عیسائی) کو مذہب، عبادات اور ذاتی قوانین میں مکمل آزادی حاصل تھی۔ ان کے گرجا گھر،معبد عدالتیں، اور مذہبی رہنما سب محفوظ تھے۔
غیر مسلم شہریوں سے جزیہ لیا جاتا تھا، جو ان کی جان و مال کی حفاظت اور ریاستی خدمات کے بدلے ایک معمولی سا ٹیکس تھا۔ یہ زبردستی مذہب کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک سماجی معاہدہ تھا۔
مسلمانوں کے زیرِ سایہ یہودی علما، فلسفی، اور ماہرین معاشیات نے غیر معمولی ترقی کی۔ انہیں وہ آزادی حاصل ہوئی جو عیسائی حکمرانوں کے دور میں ممکن نہ تھی۔
مسلمان حکمرانوں نے عدل، مساوات، اور رواداری کی بنیاد پر حکومت کی۔ ان کے نظام عدل سے متاثر ہو کر کئی لوگ اسلام کی طرف راغب ہوئے۔
۔۔۔۔
قرطبہ، غرناطہ اور طلیطلہ Toledo جیسے شہر علمی مراکز بن گئے۔ مسلمان، عیسائی اور یہودی دانشوروں نے مل کر سائنسی، فلسفیانہ، اور ادبی کتابوں کے ترجمے کیے۔ اور علم کو خوب پھیلایا۔
اسلامی حکومت نے عام شہریوں کو معاشی، تعلیمی، اور سماجی طور پر بہتر زندگی فراہم کی۔ طبقاتی تفریق کے خاتمے نے بھی لوگوں کو اسلام کی جانب مائل کیا۔
۔۔۔۔
اسلامی سپین میں جب سیاسی مرکزیت کمزور ہوئی، تو مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مسلم امارات قائم ہو گئیں۔ اور ان میں باہمی چپقلش، طاقت کی کشمکش، اور ذاتی مفادات کا غلبہ زوال کی اہم وجوہات میں شامل ہوا۔
ہر امیر اپنی چھوٹی سی سلطنت کے تحفظ کے لیے دوسرے مسلمان حکمرانوں سے لڑنے لگا۔ اس طرح اس نے عیسائی ریاستوں کو حملے اور اتحاد کا موقع فراہم کیا۔
مختلف فقہی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مولوی لوگ آپس میں متحارب ہو گئے۔ ایسے بعض علما نے اقتدار سے قربت کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بھی جاری کیے، جس سے عوام میں تذبذب انتشار اور گمرہی پیدا ہوئی
۔۔۔۔۔۔
بعض مسلم امرا نے دوسرے مسلمانوں کے خلاف عیسائی حکمرانوں سے فوجی امداد طلب کر کی۔ مگر یہ وقتی فائدہ تھا۔ بعد میں الٹا مسلمانوں ہی کے خلاف عیسائیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔
۔۔۔۔۔
علمی و مذہبی حلقوں میں بعض ترقی پسند خیالات کی مخالفت کی گئی، جس سے ریاستی و علمی ادارے کمزور ہوتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔
سپین میں اسلام کا زوال :
ری کونکیستا (Reconquista)
ایک عیسائی تحریک تھی جس کے تحت آہستہ آہستہ مسلمانوں سے علاقے واپس لیے گئے۔ بالآخر 1492ء میں غرناطہ کی شکست کے ساتھ مسلمانوں کی حکومت کا اختتام ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
معاہدہ غرناطہ کی خلاف ورزی:
عیسائی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو مذہبی آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن جلد ہی عیسائی حکومت نے یہ وعدے توڑ دیے ۔ جبری تبدیلی مذہب، جلاوطنی، اور املاک کی ضبطی عام ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔
انکوئزیشن کا قیام:
یہ مذہبی عدالتیں تھیں جو مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائی بنانے کے لیے اذیت ناک طریقے اپناتی تھیں۔ ظاہری طور پر عیسائی بننے والے “مورِسکوز” یعنی نئے عیسائیوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ دل سے عیسائی نہیں بنے۔ یہ منافقین ہیں۔ دل سے مسلمان ہیں مگر خود کو عیسائی ظاہر کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
ثقافتی صفایا:
عربی زبان، اسلامی کتب، مساجد، مدارس، اور اسلامی لباس تک پر حکومتی پابندی لگا دی گئی۔ لاکھوں مسلمان سپین چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
۔۔۔۔۔
گو کہ سپین میں اسلام کا پھیلاؤ کسی تلوار کے زور پر نہیں بلکہ عدل، علم، اور رواداری سے ہوا۔ اور مسلمانوں نے ایک کثیرالثقافتی معاشرہ تشکیل دیا جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے باہمی احترام کے ساتھ زندگیاں بسر رتے تھے۔ ان کا زوال سیاسی کمزوری، اندرونی اختلافات، مولویوں کی فرقہ وارانہ چپقلش، اور دشمنوں کی چالاکی کا نتیجہ تھا، نہ کہ مذہبی انتہا پسندی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
References:
Ibn Abd al-Hakam, Futuh Misr wa’l Maghrib wa’l Andalus
Ibn Khaldun, Al-Muqaddimah
Bernard Lewis, The Jews of Islam, 1984
Maria Rosa Menocal, The Ornament of the World, 2002
Henry Kamen, The Spanish Inquisition, 1998
Thomas Glick, Islamic and Christian Spain in the Early Middle Ages
Leave a Reply