rki.news
ناز پروین
ملک کی ترقی کے لیے صنعت اور زراعت لازم و ملزوم ہیں ۔پاکستان زرعی ملک ہے ، پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے.خوردنی تیل، چاول ،فلور ملز ،ٹیکسٹائل ،شوگر ،،فشریز ،ڈرائی فروٹ اور لیدر جیسی صنعتوں کا دارومدار زراعت پر ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ماحول اورموسم بھی زراعت کے لئے بہترین ہیں .ہر قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے
۔ پاکستان کی مجموعی قومی آمدن (جی ڈی پی)کا تقریباً 21 فیصد زراعت پر مشتمل ہے، 64 فیصد دیہی باشندوں کی روزی روٹی زراعت سے وابستہ ہے اور کل قومی لیبر فورس کا تقریباً43 فیصد زراعت پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کے اْن 11 بڑے ممالک میں سے ایک ہے جن کے پاس وسیع اور زرخیز زرعی زمین موجود ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے۔ ملک بھر میں چار موسموں کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں گرم، سرد اور معتدل آب و ہوا دی ہے جس میں بہت سی فصلیں کامیابی سے اگائی جا سکتی ہیں۔ سرسبز جنگلات، آبی وسائل ، معدنی پہاڑ اور قدرتی وسائل معیشت کا ا ہم حصہ ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ79.6ملین ایکڑ ہے جس میں 23.77ملین ایکڑ ،زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28% بنتا ہے۔ فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے
پاکستان خوراک اور فصلوں کی دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسرز اور سپلائرز میں سے ایک ہے۔ چنے کی پیداوار میں پاکستان د نیا بھر میں تیسرے، خوبانی چھٹے، دودھ چوتھے، کھجور پانچویں، گنا پانچویں، پیاز ساتویں، کینو/ سنگترہ چھٹے، آم چوتھے، گندم ساتویں، چاول گیارہویں اور جی ڈی پی سیکٹر کی ساخت کے لحاظ سے ممالک کی عالمی فہرست کے مطابق پاکستان فارم کی پیداوار میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
اتنے وسیع زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑرہی ہیں جو تشویشناک امر ہے۔ پاکستان کی زرعی درآمدات اس وقت 8 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری زرعی درآمدات پیٹرولیم کی درآمدات کو چھو رہی ہیں۔ اس قدر بے پناہ زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری ہے اور ہم اپنے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے بہت پیچھے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ گزشتہ حکومتوں کی زرعی شعبے سے عدم توجہی اور لاپرواہی ہے.
ماضی میں ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست رہی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی پیداوار زیادہ اور ہماری پیداوار کم ہو رہی ہے .ناخواندگی کسانوں کا بہت بڑا مسئلہ اور زراعت میں جدت لانے میں رکاوٹ ہے.جدید دور میں کسان پرانے طریقوں سے کاشتکاری کر رہے ہیں زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں. اجناس کی کسانوں کو معقول قیمت نہیں ملتی جس سے روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔
.چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان میں جدیدطریقوں سے کاشتکاری ممکن نہیں ہوتی. غیر معیار ی بیجوں کے استعمال سے پیداوار کم ہوتی ہے.فی ایکڑ فصل خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ ٹیوب ویل یا بجلی کا فکس ریٹ نہ ہونا ، مہنگا ڈیزل، مہنگی کھاد ، اسکے علاوہ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے خطرناک مسئلے سے دوچار ہے۔کسان کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔
معیشت کو سنوارنے کے بہتر اور جدید زرعی نظام بنانا لازمی ہے۔ اس سے عوام کو خوشحال کیا جاسکتا ہے ۔ہر سال فی ایکڑ پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے تاکہ قومی آمدنی میں اضافہ ہو۔ آج کل پوری دنیا میں میکانکی زراعت کا طریقہ رائج ہے جس میں کیڑے مار ادویہ،مصنوعی کھاد، ٹریکٹر، تھریشر وغیرہ کا استعمال شامل ہیں۔۔ پنجاب کبھی پورے ہندوستان کے صوبوں کو گندم فراہم کرتا تھا مگر اب خود بیرونی ممالک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ کسان کو جدید مشینی ذرائع تک رسائی حاصل ہو۔ حکومت اسے وسائل کے حصول میں مدد دے۔ تاکہ ملک غذائی اجناس میں خود کفیل ہو سکے .یہ تب ممکن ہے جب زراعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے.
موجودہ حکومت زراعت کی ترقی کے لئے انفراسٹرکچر پر توجہ دے رہی ہے.آج کل پیداوار کی کامیابی کا انحصار جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر ہے۔.کم جگہوں پر زیادہ فصل کسان کے لئے زیادہ نتیجہ خیز اور منافع بخش ہے،پاکستانی کی زرعی جامعات میں اس پر کام ہو رہا ہے.پاکستان کی آبادی زیادہ ہورہی ہے خو راک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے زراعت کو ترقی دینے کی بہت ضرورت ہے . زراعت کے جدید طریقے نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیداوار میں کمی آرہی ہے.
چین پاکستان اقتصادی راہداری CPECکے پہلے مرحلے کے منصوبوں کے ثمرات عوام کو ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے مرحلے کے منصوبوں میں توانائی کے منصوبے اور انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔ اب دوسرے مرحلے میں صنعتی ترقی اور زراعت پر توجہ دی جارہی ہے ۔ پاکستان سی پیک کے تحت زراعت کو جدید رجحانات پر منتقل کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہا ہے، کاشت کاروں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے اور قومی معیشت میں اس کے مثبت اثرات کو بڑھانے کے لئے خاص توجہ دی جا رہی ہے. چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے.پاکستان ٫چین نے سی پیک کے تحت زراعت کے شعبے میں ترقی کیلئے بھی مشترکہ تعاون کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے.
سی پیک کا بنیادی مقصد صنعتی ترقی اور توانائی کے بحران کا خاتمہ ہے لیکن درحقیقت اس منصوبہ سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے زرعی شعبہ کو ہوگا۔زراعت پاکستان کی معیشت کا اہم ستون ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21% ہے.زراعت کا شعبہ پاکستان کی ترقی کیلئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک کے تحت اس مقصد کے حصول کیلئے تفصیلی منصوبے ترتیب دیے گئے ہیں جن پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان میں بیج اور زراعت کی میکانائزیشن ،ٹیکنالوجی ٹرانسفر / امپورٹ پیکیج ، چین سے متوقع سرمایہ کاری اور زرعی سائنسدانوں کی صلاحیتوں کی ترقی شامل ہوگی .
بلوچستان، چولستان، ڈی آئی خان، سابق قبائلی اضلاع میں نئی زرعی تکنیک کو بروئے کار لایا جائے گا اور زیتون کی کاشت کی جائے گی ۔چین کے زرعی ماہرین مقامی افراد کو تربیت دے رہے ہیں. سی پیک دوسرے مرحلے میں زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی ہیے . تحقیق کے شعبوں میں تعاون، پودوں کے کیڑوں کی بیماریوں کے پائیدار کنٹرول کے لئے مرکز کے قیام ، مویشیوں اور ماہی گیری قومی زراعت ریسرچ سینٹر میں سنٹر آف ایکسی لینس کے قیام کے لئے مالی اعانت ، گلگت بلتستان میں تجارتی پیمانے پر چیری کی کاشت،۔ چائنہ کے ساتھ کپاس کی پیداوار اور ریسرچ پر کام جاری ہے ۔زراعت کے شعبہ کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے سے پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا.
نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے جیوونکس اینڈ ایڈوانس ٹیکنالوجی میں چینی سائنس دانوں کے ساتھ طویل اناج گرین سپر چاول اور اعلیٰ پیداوار دینے والے گنے اور روئی کی ترقی کے لئے بھی کام کر رہے ہیں تھوڑے ہی عرصے میں مقامی کاشت کے لئے فصلیں دستیاب ہوں گی جس سے ملک میں زراعت کے شعبے میں انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔سی پیک کے دوسرے فیز میں زراعت کی ترقی کو فروغ مل رہا ہے ،پاکستان کو چینی ماہرین کی بھرپور معاونت حاصل رہے گی زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جا سکے گا۔چینی ادارے پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر زرعی پیداوار کو محفوظ رکھنے کے لیے گوداموں کا نظام ترتیب دیں گے جس میں مصنوعات کی خریداری اور انہیں محفوظ رکھنے کے گودام، عبوری گودام اور بندرگاہ پر بنائے جانے والے گودام شامل ہیں. سبزیوں کے پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے.
ٹریکٹر ز، اجناس کومحفوظ بنانے کی مشینری ،انرجی سیونگ پمپس، کھادوں اور بیج بونے اور فصل کاٹنے کے آلات خریدنے کے لئے مختلف وزارتیں اور چین کا ترقیاتی بنک بلا سود قرضے فراہم کرے گا۔
100ایکڑ اراضی پر مرچ فارم کا پائلٹ پروجیکٹ مکمل دوسرے مرالہ مرچ فارم کا رقبہ 3ہزار ایکڑ تک،دوسرے فیز میں کے پی کے اور سندھ میں 30000ایکڑ پر کاشت کی منصوبہ بندی ، مقامی کسانوں کو ایک ایکڑ سے ایک لاکھ روپے سے زاید آمدنی ہو گی جبکہ 8000ٹن سے زیادہ خشک مرچیں پیدا ہونگی۔جنوبی پنجاب میں بھی اچھی قسم کی مرچ کاشت کی جا رہی ہے۔ چا ئے اور دیگر اجناس پر کام ہو رہا ہے ۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد سے کسان خوشحال ہوگا ۔
پشاور میں قائم چینی ثقافتی مرکز چائنہ ونڈو کے زیر اہتمام سی پیک فیز 2.0 پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا.جس میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سابقہ سفارت کاروں حکومت کے پالیسی سازوں صوبائی اور قومی وزراء اور مقامی کاروباری شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی .اس سیمینار میں سی پیک کے فیز ٹو میں جاری دوسرے منصوبوں کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے کو بھی تفصیل سے نمایاں کیا گیا.اس سیمینار میں چین سے آئے ایک سرمایہ کار نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ چینی سرمایہ کار کے پی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی خواہش رکھتے ہیں وہ یہاں پر صنعتیں قائم کرنا چاہتے ہیں جن میں قیمتی پتھر فشریز زرعی فارم ڈیری فارم پولٹری فارم سبزیوں اور پھلوں کی پروسیسنگ جیسے منصوبے شامل ہیں .انہوں نے کہا کہ ہم ان منصوبوں کے ذریعے مقامی افراد کے لیےہزاروں کی تعداد میں جہاں روزگار کے مواقع فراہم کریں گے وہیں جدید زراعت کے لیے نئی ٹیکنالوجی بھی لائیں گے چینی ماہرین مقامی کسانوں کو جدید خطوط پر زراعت کی تربیت بھی فراہم کریں گےانہوں نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی کہ چینی سرمایہ کاروں کو حکومت کی سطح پر سہولت فراہم کی جائےصنعتوں کے قیام میں مدد دی جائے تو بڑی تعداد میں چینی سرمایہ کار کے پی میں زرعی صنعتیں لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس سے صوبے میں زرعی انقلاب آئے گا وہیں عوام بھی خوشحال ہوں گے ۔اس سیمینار کے ذریعے سیاست دانوں صنعت کاروں اور بڑی تعداد میں طلبہ اور عوام کو بھی سی پیک فیز ٹو سے متعلق اہم معلومات حاصل ہوئیں.سی پیک پاکستانی معاشرے اور عوام کی حالت زار میں بہتری کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کرے گا وہیں پاک چین دوستی کو بھی مزید مضبوط کرے گا۔
Leave a Reply