rki.news
(محمد اصغر خان کی نثری فکر کے تناظر میں)
تحریر:شازیہ عالم شازی
اردو ادب میں سفرنامہ، آپ بیتی اور تجرباتی نثر ہمیشہ قاری کے دل کے قریب رہی ہے، بشرطیکہ اس میں زندگی کی حرارت، تجربے کی صداقت اور بیان کی شگفتگی موجود ہو۔ محمد اصغر خان کی کتاب “سیلِ رواں” انہی خصوصیات کا حسین امتزاج ہے۔ یہ کتاب محض تجربات اور واقعات کا بیان نہیں، بلکہ مصنف کی داخلی دنیا، اس کے احساسات کی اٹھان، اور مشاہدے کی باریک بینی کا آئینہ ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ زندگی کی دھیمی دھیمی رَو مصنف کے قلم سے ایک محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ بہہ رہی ہے۔
محمد اصغر خان اپنی نثر میں الفاظ کا شور نہیں مچاتے۔ان کی سطریں چلتی ہوا کی مانند قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں ہوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف سامنے بیٹھا ہو، چائے کی پیالی ہاتھ میں ہو، اور دھیرے دھیرے زندگی کی الجھنوں اور نرمیوں پر گفتگو جاری ہو۔
ان کی تحریر میں نہ نعرہ ہے نہ تشدید بلکہ ایک تاثر، تاثیر اور تہذیب ہے وہ اپنے انتساب میں لکھتے ہیں۔۔
“ان لوگوں کے نام جو سوچتے تو میری طرح ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس کے اظہار میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں”
اس ضمن میں مصنف کا انتساب ہی ان کی نفسیاتی گہرائی اور فکری حساسیت کی بہترین نشانی ہے یہ وہ الفاظ ہیں جن میں مصنف کا باطن پوری طرح بولتا ہے، کتاب کے مضامین زندگی کے انہی گوشوں سے جڑے ہیں، جن سے ہر انسان روز گزرتا ہے مگر کم ہی لوگ ان کے معنی پکڑ پاتے ہیں یادیں فقط یادیں نہیں رہتیں، مشاہدات صرف منظر نہیں ہوتے، اور تجربات محض داستانیں نہیں بنے، بلکہ ان سب میں انسانی روح کی لطافت شامل ہو جاتی ہے۔
مصنف کبھی مسکراتے ہوئے تو کبھی چپ چاپ سوچتے نظر آتے ہیں اور کبھی دل کے اندر کی آواز باہر لے آتا ہیں،اگرچہ “سیلِ رواں” طنز و مزاح کی کتاب نہیں، مگر مصنف کی فطری شگفتگی یہاں بھی ساتھ ہے مسکراہٹ تحریر کی رگ رگ میں خفیف موجوں کی طرح بہتی ہے۔
یہ وہ مزاح ہے جو دل کو تھکاوٹ نہیں دیتا بلکہ ہلکا کرتا ہے”سیلِ رواں” کا اسلوب عالمی ادب کی ان کلاسیکی اور جدید تحریروں سے ہم آہنگ محسوس ہوتا ہے جن میں ذاتی تجربہ اجتماعی احساس میں ڈھل جاتا ہے ان کی روایتی تحاریر میں عالمی ادیب فکری و اسلوبی مماثلت نمایاں وصف نظر آتا ہے جس میں “رالف والڈو ایمرسن” کے تجربے اور فکر کی باطنی روش Self-reliance کا ذائقہ “رائٹ ایرک سائر” کی طرح روزمرہ کو معنویت کے سادگی میں فلسفہ لکھنا،خلیل جبران احساسات کو شعری نثر میں بدلنا جیسے دل سے نکلتی ہوئی بات “ہنری ڈیوڈ تھیرو” کی طرح زندگی کی باریک معنویت کا شعور جہاں فلسفہ اور مشاہدہ ایک ہو جائیں،ان ادیبوں کے اسلوب میں ایک خاموش گہرائی ہے، جو محمد اصغر خان کی تحریروں میں بھی نمایاں نظر آتی ہے اسی طرح اردو روایت میں مقام کی جب بات آتی ہے تو اردو میں اس کتاب کا لِٹریری رشتہ ان تحریروں سے جوڑا جا سکتا ہے جو:رشید احمد صدیقی کے مشاہدے کی شرافت،ابنِ انشا کی بے ساختگی،جوگندر پال کی داخلی کیفیت اور قرۃ العین حیدر کی شعری نثر کے قریب آتی ہیں مگر یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ اس کے باوجود مصنف کسی متذکرہ مصنفین کا عکس نہیں بلکہ وہ ماضی سے جڑی روایات کی پاسداری کے لیئے ان کے کرداروں میں جھانک تاک ضرور کرتے ہیں مگر ان کا لہجہ اپنا اور اپنا الگ آہنگ ہے”سیلِ رواں” قاری کو خود اپنے اندر کی ندی کی روانی اور اتار چڑھاؤ کا احساس دلاتی ہے جسے پڑھنے والا صرف سوچتا نہیں بلکہ محسوس کرتا ہے،”سیلِ رواں” ایسی کتاب ہے جو جذبات کی خاموش لہروں کو آواز دیتی ہے یہ اپنے قاری کو سوچ کی تنہائی عطا کرتی ہے،دل کی گہرائی جگاتی ہے،اور زندگی کے معمولی معاملات میں چھپی ہوئی خوبصورتی دکھاتی ہے یوں یہ کتاب نہ صرف ادب کا حصہ بنتی ہے بلکہ زندگی
Leave a Reply