rki.news
رپورٹ ثمینہ علی
سیول، جنوبی کوریا کا دارالحکومت، اس وقت ادبی جذبے اور تہذیبی جوش سے لبریز ہے۔ اس کی سب سے بڑی سالانہ ادبی تقریب، سیول انٹرنیشنل بک فیئر (SIBF)، بدھ کے روز گینگنم کے معروف سی او ای ایکس کنونشن سینٹر میں شروع ہوئی۔ یہ میلہ نہ صرف کتابوں کا تہوار ہے بلکہ کورین معاشرے کے ادبی رجحانات اور عالمی ادبی روابط کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
اس سال میلہ ایک خاص پس منظر میں منعقد ہو رہا ہے۔ معروف کورین ادیبہ ہان کانگ کو حال ہی میں ادب کا نوبل انعام ملا ہے، جس کے بعد سے ملک میں مطالعے کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ہان کانگ کوریا کی پہلی اور ایشیا کی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی جیت نے نہ صرف مقامی قارئین کو جوش دلایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کورین ادب کو نئے افق عطا کیے ہیں۔
میلے میں اس بار 530 سے زائد پبلشرز نے شرکت کی ہے، جن میں تقریباً 430 مقامی اور 100 بین الاقوامی ناشر شامل ہیں۔ سترہ ممالک کی نمائندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیول بک فیئر اب صرف ایک قومی ایونٹ نہیں رہا بلکہ عالمی ادبی دنیا کا اہم جز بن چکا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد زائرین کی آمد متوقع ہے اور تمام ٹکٹ پہلے ہی فروخت ہو چکے ہیں۔
میلے کا تھیم “The Last Resort” رکھا گیا ہے، جو اس خیال کی نمائندگی کرتا ہے کہ کتابیں انسان کی زندگی میں ایک پناہ گاہ ہوتی ہیں، خاص طور پر اس دور میں جب سوشل میڈیا، جنگ، معاشی دباؤ اور ذہنی دباؤ جیسے عوامل غالب ہیں۔ میلے کے افتتاحی خطاب میں کورین پبلشرز ایسوسی ایشن کے صدر یون چُل ہو نے کہا، “کتابیں ہماری روح کا آئینہ اور ہماری ثقافتی شناخت کا بنیادی حصہ ہیں۔”
اس بار میلے میں تائیوان کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا ہے۔ تائیوان کے 84 پبلشرز نے پانچ سو سے زائد کتابیں پیش کی ہیں، جن میں نوجوانوں کی کہانیاں، معاشرتی مسائل، اور تائیوان کی تاریخ پر مبنی کتب شامل ہیں۔ چلی کی شرکت بھی قابلِ ذکر ہے، جو اس سال نوبل انعام یافتہ چلی کی شاعرہ گبریئلا مسترال کو خراجِ عقیدت پیش کر رہا ہے۔
ادبی گفتگوؤں اور مشہور شخصیات کی شرکت نے میلے کو مزید جاذبِ نظر بنا دیا ہے۔ معروف ہدایتکار پارک چن وُک، ادیبہ کِم اے ران، مصنفہ بیک ہی نا، اور سابق صدر مون جے اِن بھی میلے میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ شخصیات مختلف سیشنز میں قارئین سے بات چیت کر رہی ہیں اور ادب و ثقافت پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔
ہان کانگ کی نوبل جیت نے کوریا میں “ریڈنگ رینیسانس” کا آغاز کیا ہے۔ کتابوں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ہان کانگ کی کتابیں جیسے The Vegetarian، Human Acts اور We Do Not Part دوبارہ شائع کی جا رہی ہیں۔ نوجوان نسل میں مطالعہ کو فیشن کا درجہ حاصل ہو رہا ہے اور کتابیں سوشل میڈیا پر نیا ٹرینڈ بن گئی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی کورین ادب کو اب زیادہ سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ 2024 کے فرینکفرٹ بک فیئر میں ہان کانگ کی موجودگی اور کتب کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا۔ پبلشرز کا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک ترجمے اور اشاعت کے معاہدوں میں اضافہ ہوا ہے، جو ایک نئے ادبی دور کا آغاز ہے۔
سیول بک فیئر نہ صرف ادب سے وابستہ افراد کے لیے بلکہ عام قارئین، طلباء، اساتذہ اور مصنفین کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ ہان کانگ کی نوبل جیت اس میلے کو ایک خاص رنگ دے چکی ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ کوریا اب صرف K-pop اور ڈراموں کا ہی نہیں بلکہ عالمی ادب کا بھی ایک بڑا مرکز بنتا جا رہا ہے۔
Leave a Reply