Today ePaper
Rahbar e Kisan International

شاہ محمد مری: ایک فکری و ادبی تحریک کا معتبر نام

Articles , Snippets , / Sunday, July 27th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بلوچستان کی فکری اور ادبی فضا میں ڈاکٹر شاہ محمد مری ایک ایسا معتبر نام ہے جو صرف ایک ادیب، محقق یا مورخ ہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی جہدکار اور فکری تحریک کا نمائندہ بھی ہے۔ ان کی زندگی، جدوجہد، تصانیف اور نظریاتی وابستگیاں ایک پورے فکری منظرنامے کو تشکیل دیتی ہیں، جس کا اثر نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی مجموعی دانش پر مرتب ہوا ہے۔

شاہ محمد مری کا تعلق بلوچستان کے ضلع کوہلو کے ایک دور افتادہ علاقے ماوند سے ہے۔ ان کی پیدائش 1953ء میں ہوئی۔ ان کا ابتدائی تعلیمی سفر کوہلو اور سبی سے ہوتا ہوا بولان میڈیکل کالج کوئٹہ تک پہنچا، جہاں سے انہوں نے ایم بی بی ایس کیا۔ بعد ازاں، لاہور سے پتھالوجی میں ایم فل کیا۔ لیکن ان کی اصل پہچان ایک معالج کے بجائے ایک مفکر، مترجم، مورخ اور ترقی پسند ادیب کے طور پر بنی۔

شاہ محمد مری کا فکری ارتقاء ایک خاص سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔ ان کی سیاسی تربیت پاکستان کے سوشلسٹ رہنما سی آر اسلم کی صحبت میں ہوئی اور وہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں، جب سیاسی میدان محدود ہوا تو انہوں نے ادبی اور تحقیقی محاذ کو ترجیح دی اور بائیں بازو کے نظریات کو بلوچستان میں مضبوطی سے جڑیں دینے کا بیڑا اٹھایا۔

ڈاکٹر مری نے ایک طرف بلوچستان کی تاریخ، ادب، اور سیاست کو یکجا کیا، تو دوسری جانب عالمی انقلابی فکر کو بھی مقامی سیاق و سباق میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ وہ صرف لکھنے والے نہیں، بلکہ “سنگت” جیسے ماہنامے کے ذریعے ادبی اور فکری حلقوں کو جوڑنے والے تھے۔

“عشاق کے قافلے” نامی سلسلہ دراصل ان شخصیات کا احاطہ ہے جنہوں نے مزاحمت، نظریہ اور قربانی کی بنیاد پر تاریخ رقم کی۔ اس سلسلے میں مست توکلی، یوسف عزیز مگسی، شاہ عنایت، سائیں کمال خان شیرانی سے لے کر فہمیدہ ریاض، چے گویرا، اور ماؤزے تنگ جیسے عالمی انقلابی شامل ہیں۔ یہ سلسلہ صرف سوانحی خاکوں کا مجموعہ نہیں بلکہ نظریاتی ربط کی ایک دستاویز بھی ہے۔

ان کی تاریخی تصانیف “بلوچ قوم: عہدِ قدیم سے عصرِ حاضر تک” ایک ایسی کوشش ہے جو بلوچ تاریخ کو استعماری یا مرکز پرست بیانیے سے آزاد کر کے ایک مقامی، خودمختار اور تحقیقی زاویہ فراہم کرتی ہے۔ یہ کتب نہ صرف علمی اہمیت کی حامل ہیں بلکہ بلوچ تشخص کی فکری و تہذیبی بازیافت میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان کی ترجمہ شدہ کتب جیسے “کمیونسٹ مینی فیسٹو”، “کارل مارکس کی سوانح”، “سپارٹیکس” یا “سٹیزن ٹام پین” اس بات کا ثبوت ہیں کہ ڈاکٹر مری نے عالمی انقلابی فکر کو اردو اور بلوچی زبانوں میں منتقل کر کے نظریاتی علم کو عام لوگوں تک پہنچایا۔ یہ ترجمے عام مترجم کے ترجموں سے مختلف ہیں کیونکہ ان میں مفہوم کی تہہ داری، فکری تناظر اور مقامی سیاق کا گہرا شعور شامل ہے۔

بلوچستان کی ادبی تحریک پر لکھی گئی ان کی کتاب “بلوچستان کی ادبی تحریک” بلاشبہ ایک دستاویزی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں 20ویں صدی کے بلوچ ادیبوں، حلقہ ارباب ذوق، پروگریسو رائٹرز موومنٹ اور بلوچ ادبی سنگت جیسے اداروں کی فعالیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ادب محض تفریح ہی نہیں بلکہ تبدیلی کا ہتھیار بھی ہے۔

ڈاکٹر مری پر بعض علمی اور ادبی حلقوں نے تنقید بھی کی ہے کہ وہ بائیں بازو کی فکر کو بعض اوقات قومی قوم پرستی سے اس طرح جوڑتے ہیں کہ دونوں نظریات میں تضاد پیدا ہوتا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن ایک نقاد کی نظر سے دیکھیں تو ان کا یہی تضاد دراصل فکری وسعت اور حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ انہوں نے نظریاتی خول میں بند ہونے کے بجائے ہر تحریک اور شخص کو اس کی تاریخی افادیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر مری کی 50 سے زائد کتب، ماہنامہ سنگت اور ان کی علمی گفتگو آج بھی بلوچستان کے تعلیمی اداروں، فکری محفلوں اور ادبی سیمیناروں میں حوالہ جاتی اہمیت رکھتی ہیں۔

ان کی تحریریں محض جذباتی نعرہ بازی نہیں بلکہ دلیل، حوالہ اور گہری تحقیق پر مبنی ہیں۔ وہ ایک ایسی فکری روایت کے علمبردار ہیں جو استحصالی قوتوں کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرتا ہے بلکہ متبادل بیانیہ بھی فراہم کرتا ہے۔

اس سلسلے میں بلوچستان حکومت سے گزارش ہے کہ بلوچی اور اردو تراجم کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا جائے، جس میں ڈاکٹر مری کے تمام تراجم کو یکجا کر کے عام قارئین کے لیے آسان بنایا جائے۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی طرز پر دیگر صوبوں میں بھی علمی مراکز قائم کیے جائیں۔

تعلیمی اداروں میں بلوچستان کی فکری تحریکات کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوان اپنے فکری ماضی سے واقف ہو سکیں۔

ڈاکٹر مری کی زندگی پر ڈاکومنٹری یا سوانحی فلم بنائی جائے تاکہ ان کی خدمات کو نئی نسل تک بصری شکل میں بھی منتقل کیا جا سکے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری صرف ایک ادیب، مورخ اور طبیب ہی نہیں بلکہ ایک فکری کارواں کے سالار بھی ہیں۔ ان کا قلم بلوچستان کی مٹی، اس کے دکھ، اس کے خواب اور اس کے مزاحمتی جذبے کی ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ادب، تاریخ اور سیاست محض الگ الگ شعبے ہی نہیں بلکہ ایک زندہ معاشرے کی مشترکہ سانسیں بھی ہیں۔ ان کی فکری و ادبی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں جسے محفوظ اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International