پیارے قارئین اسلام علیکم. امید ہے آپ سب بخیر و عافیت ہوں گےآج اللہ پاک کے فضل و کرم سے مجھے جس کتاب پہ راے دینی ہےاس کتاب کا نام شعور سے عرفان تک ہے. اور کتاب کے مصنف ہیں ڈاکٹر صفدر محمود خان مستوئی صاحب.
علامہ اقبال کا یہ شعر، عرفان سے شعور تک کے سفر کو خوب بیان کرتا ہے.
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
شعور سے مراد ہے آگہی، جان لینا، اپنے بارے میں، اپنے حقوق و فرایض کے بارے میں، مکمل آگاہی ہی شعور ہے اور اس چیز کا فیضان ہو جانا کہ یہ کاینات اور کاروبار حیات چلانے والی ایک ہی ہستی ہے ہی شعور ذات ہے اور پھر جب انسانی روح شعور کی تمام منازل طے کر جاتی ہے تو پھر عرفان ذات سے عرفان الہی تک کے تمام در وا ہو جاتے ہیں. تمام مذاہب کی تعلیمات کا مرکز شعور و عرفان کی وسعتوں سے آگاہی و آشنائی ہی ہے. مذہب سے زیادہ انسانیت کے ہرچار پہ زور دیا گیا.
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
حقوق العباد پہ بہت زیادہ زور دیا گیا ہے یہی عرفان ہے یہی انسانیت کی معراج ہے. مجھے یہ کتاب پڑھتے ہوے بے پایاں مسرت ہو رہی ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود خان مستوئی نے اپنی حساس طبیعت اور باریک بین مشاہدے کی بنا پہ شعور اور عرفان کے تمام مدرجات اور تفصیلات کو انتہائی مہارت اور چابکدستی سے اپنی پہلی شعری تصنیف میں ایسے پرو دیا ہے جیسے کوی ماہر جوہری گراں قدر ہیروں کو ایک لڑی میں پرو کے ہار کی شکل دے دے. حمد کا پہلا شعر ملاحظہ فرمائیں
کون کہتا ہے، دعائیں رد کرتا ہے
میرا رب عطایں بے حد کرتا ہے
اور رب سے بے پایہ محبت کا اظہار دیکھیے
تم سے پیار کیوں نہ کروں
تیری ذات سے پیار ہے مجھ کو
تیری بات سے پیار ہے مجھ کو
اور انسانی خسارے کا ذکر کچھ اس طرح بیاں کرتے ہیں
بشر رہا ہمیشہ ہی خسارے میں زمانے کی قسم
ہے قرآن کے آخری پارے میں زمانے کی قسم
اور ہدیہ نعت میں حب نبی کا ایک نظارہ دیکھیے
آمد سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات کرو
صبح بہار کی بات کرو
رخ دلدار کی بات کرو
گل گلزار کی بات کرو
اور حمد وثنا، مدحت علی، وحسن و حسین کے بعد اپنی بے سرو سانی کا ذکر کچھ یوں ہے کہ
میں بحروں سے واقف ہوں کہاں
کہ ردیف، قافیے باتسلسل لکھوں
اور اللہ والوں کو یوں بیان کر دیا کہ
تلخ کلامی کرے ان سے نادان کوی
کر لیتے ہیں درگزر نفرت نہیں کرتے
بےشک معاف کر دینا پیغمبروں کی ادا ہے درویشوں کی قبا ہے.
حالات حاضرہ کی نشاندہی کچھ اس طرح فرماتے ہیں.
بک رہی ہے کوڑیوں کے بھاو حرمت بشر آج
جراتوں کے نشان کہاں گیے، وہ پاسبان کہاں گیے.
اور چہار سو پھیلی ہوئی دہشت میں امید کا دیا یوں روشن کرتے ہیں.
جب بدلے گاموسم بستی آباد ہو گی
نءی ترنگ سے دنیا پھر آباد ہو گی
فرقہ بازی، کو اس طرح روکتے ہوے دکھائی دیتے ہیں.
چھوڑ کر یہ گروہ بندی، خدارا ایک ہو جاو
اچھی نہیں ہے فرقہ بندی، خدارا ایک ہ جاو
چاند پہ جانے والوں پہ بھی ایک طنز بھری نظروں سے شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں
کوی جاتا ہے چاند پر تو جاے ہماری بلا سے
ڈال دیں گے ہم بھی صفدر، نگاہ اس پہ حسرت کی
بولتا ہوا کلام ہے اللہ پاک کی واحدنیت، نبی آخر الزماں سے محبت، محبت کی وارداتوں میں بھی انا کے علم کو سر بلند رکھتے رکھتے ڈاکٹر صاحب موجودہ دور کے تمام سماجی، معاشی اور معاشرتی عیوب کو بزور قلم دنیا کے سامنے اس ایمانداری سے لاے ہیں کہ طبیعت باغ باغ ہو گءی.
تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کا ذکر ہو یا بنت حوا کو خراج پیش کرنا ہے ڈاکٹر صاحب نے اپنی مہارت کو یکساں منوایا ہے.ڈاکٹر صفدر محمود خان مستوئی صاحب کو ان کی پہلی اور انتہائی خوبصورت تخلیق کے لیے میری دلی مبارک باد.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
9 مءی 2024 بروز جمعرات
drnaureenpunnam&gmail.com
Leave a Reply