rki.news
شپون مومند
فیروز آفریدی کا چالیس سالہ مسافرانہ زندگی کا تجربہ مشاہدات سے بھرپور ہے۔ جب میں نے اُن کی آخری کتاب “زندگی سفر سفر” پڑھی تو مجھے اس میں قطر میں بسر کیے گئے اُن کے پورے زندگی کا عکس نظر آیا۔ کس قدر مشقتوں میں وہ زندگی کی راتیں گزارتے رہے، اور پھر اس خاموش اور تھکے ہوئے ماحول میں مسافروں کے لیے ادبی سرگرمیاں ترتیب دینا ایک نہایت مشکل کام تھا، جو انہوں نے خلوص اور ایمانداری سے انجام دیا۔
اپنی غریب اور محنت کش قوم کا حوصلہ بلند رکھنا اور پردیس میں مسابقت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی اُمید میں نہ تھکنے والی دوڑ دھوپ کرنا—میں اس کا گواہ ہوں۔
یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
میں حیران ہوتا تھا کہ ایک شخص مزدوری کا کام بھی دیانتداری سے سرانجام دیتا ہے اور ساتھ ہی اپنے لوگوں کے لیے باقاعدگی سے ادبی محفلوں کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یہ کام صرف فیروز جیسے “دیوانے” ہی کر سکتے ہیں۔
یہ کتاب “شگے شگے ژوند” (ریت بھری زندگی) اُن کی دوسری شعری مجموعہ ہے، اور اس سمیت اُن کے تقریباً دس بارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
اتنی مصروفیت کے باوجود کتاب لکھنا اور شائع کروانا بذاتِ خود ایک بڑی جدوجہد ہے۔
میں نے اُن کی شاعری میں بہت کچھ منفرد پایا۔ اس کتاب میں موضوعات کی بہت تنوع ہے اور اُن کی شاعری کے رجحانات مکمل طور پر مذہبی پہلو کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔
شاعری میں سنجیدہ اور پختہ کلام بھی موجود ہے، اور بے ساختہ، شوخ و شنگ اشعار بھی شامل ہیں۔
کتاب میں ہر نظم و غزل کا ایک مخصوص پس منظر چمکتا ہے۔
امید ہے کہ فیروز آفریدی صاحب کا یہ شعری مجموعہ عوام کو بے حد پسند آئے گا۔
بخدمت:
شپون مومند
قطر
Leave a Reply