تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

شہزاد نیئر کے

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Wednesday, February 15th, 2023

( چاک سے اترے وجود کی روشنی میں )

سال بھر میں دورو نزدیک ھر جگہ سے شعری مجموعے وصول ھوتے رھتے ھیں
جن میں ایک سی شاعری پڑھنے کو ملتی ھے
بہت کم ، کتابیں ایسی ھوتی ھیں جو ذھن و دل کی آبیاری کا باعث بنتی ھیں، اور ان میں سے بھی بہت کم ایسی ھوتی ھیں جنہیں پڑہ کر ان پر کچھ لکھنے کو جی کرتا ھے۔
ایسے ھی مجموعوں میں سے ایک شہزاد نیئر کا
(چاک سے اترے وجود)
بھی ھے
شہزاد نیئر
ایک کہنہ مشق شاعر ھیں ان کی پہلی کتاب( برفاب) نظمیں سیہ چن کے پس منظر میں کی گئی شاعری ھے۔
جسے پین انٹرنیشنل ایوارڈ یو کے سے نوازا گیا
زیر نظر کتاب چاک سے اترے وجود نظمیں اور غزلیں ھیں
اور اس کتاب کو بھی پروین شاکر ایواڈ سے سراہا گیا۔
ان کی شاعری میں وہ سارےرنگ موجود ھیں جو اچھی شاعری کے لیئے لازم و ملزوم ھوتے ھیں ۔
جدید ااور کلاسک کا باہمی امتزاج ان کی شاعری کو دو آتشہ بنائے دیتا ھے۔
تمہارے ہجر کے شانے پہ ھاتھ رکھتے ھی
مرے بدن کا لرزتا ھوا مکان گرا
یہ شعر موضوع کے اعتبار سے کتنا بھی قدیم ھو، مگر شہزاد نے اس میں ہجر کو شانہ دے کر نئے انداز سے سہارا دیا ھے
اسی طرح آگے دیکھئے
تم لذت وصال ھی میں خرچ ھو گئے
وہ کبف انتظار کہاں جانتے ھو تم
لذت وصآل میں خرچ ھونا بھی تراکیب میں ایک نئے اضافہ لگا
سیف اند بیاں بات بدل دیتا ھے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نئی
انہوں نے اس بات کو مد نظر رکھتے بات بدل بدل کر اشعار کہے ھیں
نگاہ پھیر کے مجھ کو برہنہ جسم نہ کر
مرے بدن پہ نظر کا لباس رھنے دے
دانش مندی یہ ھوتی ھے کہ بندے کو پتہ ھو کہ کہاں بولنا ھے اور کہاں چپ رہنا ھے۔
اور کہاں بات اس ڈھنگ سے کرنی ھے کہ کام بھی نکل جائے اور پتہ بھہ نہ چلے
جیسے
مرے سخن کا سلیقہ بچا گیا مجھ کو
میں آگیا تو عدو پر مرا بیاں کھلا
اور شعر دیکھئے
چلی چلی مری جانب سلگتی دھوپ چلی
کھلا کھلا تری زلفوں کا بادباں کھلا

محبت تو گویا ان کے وجود کا حصہ ھے
وصل اور ہجر کا بیاں قدم قدم پر قوس و قزح بناتا ھوا گزرتا ھے
جسے خود سے نہیں فرصتیں، جسے دھیان اپنے جمال کا
اسے کیا خبر مرے شوق کی، اسے کیا پتہ مرے حال کا
اور
یہی کھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا
تری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ھوئے
اور
تم محبت تلاش کرتے ھو
اس کا تو خاندان بھی نہ رھا

اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ھوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے
انتظار کی کیفیت پر کہے گئے خوبصورت اشعار سے اردو شاعری کا دامن مالا مال ھے
اس موضوع پر ان کا انداز بھی دیکھئے
صرف آنکھیں پڑی تھیں رستے میں
جب وہ آیا تو جا چکا تھا میں

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ھوتا تو خدا ھوتا
ڈبویا مجھ کو ھونے نے ،نہ میں ھوتا تو کیا ھوتا
ھونے نہ ھونے کا دکھ غالب کی طرح ھر شاعر کا مسئلا رھا ھے۔ اور سب نے اسے اپنے اپنے ڈھنگ سے برتا ھے
شائد یہی وہ گرہ ھے جسے کھولتے کھولتے آدمی شعرکہنے لگتا ھے

ایسے لگتا ھےکہ
انہیں بھی اپنے ھونے نہ ھونے کا کرب کھائے جا رہا ھے
کیا زمانہ تھا ھم بھی ھوتے تھے
اب ہمارا گمان بھی نہ رھا
اور
کوئی ملتا نہیں ھے جس سے پوچھیں
کہاں گم ھو گیا ھونا ہمارا
تنہائی، بے زاری، اور اداسی ،
ایسی حالتیں ھیں جن میں اکثر کسی کی مداخلت برداشت نہیں ھوتی۔ ایسے ھی کسی لمحے کی واردات دیکھئے
اب آگیا ھے تو چپ چاپ خآمشی کو سن
مرے سکوت میں اپنی کوئی صدا نہ ملا
ان کی شاعری میں سادگی و پرکاری ، چھوٹی بحور میں کھل کر سامنے آتی ھے
آنے والوں کے رستے پہ آنکھیں رہیں
جانے والوں کو رخصت نہیں کر سکا

میں نے گر کر زمیں کو تھام لیا
ورنہ ساگر الٹ گیا ھوتا

وہ تو دل تھا وگرنہ یہ آنسو
سنگ ھوتا تو کٹ گیا ھوتا

ان کی نظمیں ایسے لطیف پیرائے میں کہی گئی ھیں کہ کہیں سے بھی اندر کا فوجی سامنے نہیں آتا ۔
(مری کے مال روڈپر)
ایک ایسی نظم ھے
جسے پڑھ کر ہمیں بھی اپنے غم کاغذوں کی طرح ادھر ادھر بکھرے ھوئے محسوس ھوتے ھیں
(مونا لیزا)
ایسی متاع حیات ھے جو عمر کے اس حصے میں دستیاب ھوتی ھے جہاں اس کا مصرف بے معنی ھو کے رہ جاتا ھے۔
سچ کہوں تو ان کی نظموں پر بات کرنے کے لیئے ایک الگ سے مضمون درکار ھے۔
صرف
( من وسلوی )
ان کی ایک ایسی نظم ھے جس پر بات کرنے کے لیئے کئی صفحات بھی کم پڑ جائیں،
آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے حوالے سے بہ ظاہر چند سطروں کی نظم، مگر خیال آفرینی ایسی کہ بلا مبالغہ اسے عالمی ادب میں شامل کیا جا سکتا ھے
میں اس مضمون کو اسی خوصورت نظم پر ختم کرتا ھوں
من و سلوی

زمیں لڑکھڑائی
مکانوں کا ملبہ بنا
اور ملبے پہ بڑھتی ھوئی بھوک پھیلی
جو بچے بچے تھے
وہ بھوکی نگاھوں سے افلاک تکتے ھوئے سو گئے تھے
گجردم سماوی پرندوں نے پیکٹ گرائے
عجب ذائقوں والے( ویفرز )حیرت سے کھاتے
بڑی چاکلیٹیں سڑکتے ھوئے سوچتے تھے
غلط کہہ رھے ھیں جو کہتے ھیں
یہ ان چکھے ذائقوں والی چیزیں زمینی ھیں
ان کو یقینا خدا نے اتارا ھے
گر اس جہاں کی یہ ھوتی تو پہلے بھی ملتیں

اظہر عباس


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International